1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی ایٹمی معاہدہ: ’جمود کے بعد حرکت‘

18 مئی 2010

تہران حکومت اپنےایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعےمیں لچک کامظاہرہ کرتے ہوئے اس بات پررضامند ہو گئی ہے کہ ایرانی یورینیم کوافزودگی کےلئے بیرون ملک بھیجا جائےگا۔ اس موضوع پرڈوئچے ویلے کے نامہ نگار اُلرِش پِک کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/NQxy
ایرانی صدر احمدی نژاد تہران میں اپنے برازیلین ہم منصب ڈی سلوا کا استقبال اکرتے ہوئےتصویر: AP

چند ماہرین کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے کے ساتھ ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تنازعے میں بظاہر ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ اس تنازعے میں حقیقی پیش رفت کی خواہش کی تو جاتی ہے لیکن جو معاہدہ طے پایا ہے، اس میں یہ حقیقی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ ایران مسقتبل میں اپنا سارا یورینیم نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ بیرون ملک افزودگی کے لئے بھیجے گا۔

تہران ترکی کے راستے اپنا 1.2 ٹن کم افزودہ یورینیم بیرون ملک بھجوائے گا، اور ایک سال کے اندر اندر اسے بیس فیصد افزودگی والا 120 کلوگرام یورینیم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں واپس ملے گا۔ مطلب یہ کہ یورینیم کو افزودہ کرنے والی ایرانی سینٹری فیوج مشینیں آئندہ بھی کام کرتی رہیں گی اور عالمی برادری پر تب بھی واضح نہیں ہو گا کہ ایرانی جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے یا فوجی استعمال کے لئے۔

موجودہ معاہدے میں کسی بہت بڑی پیش رفت کا کوئی ثبوت نہ بھی ملے، تو بھی یہ جمود کے بعد ہونے والی حرکت ضرور ہے اور وہ بھی کئی پہلوؤں سے۔ ایک تو یہ ایران کی مذاکرات پر آمادگی کا ثبوت ہے۔ دوسرے یہ کہ ایران نے اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور ترکی اور برازیل کی ثالثی پیشکش قبول کی ہے۔ اس رویئے کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔

تہران نے ترکی اور برازیل کی ثالثی پیشکش قبول کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایران نے اپنے اس اقدام سے مغربی ویٹو طاقتوں کے مقابلے میں ابھرتی ہوئی ریاستوں کے طور پر ترکی اور برازیل کی حیثیت کا اعتراف کیا ہے اور ساتھ ہی خود کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو جانے کے احساس سے بھی کسی حد تک باہر نکال لیا ہے۔ یہ وہ پیش رفت ہے جسے صدر محمود احمدی نژاد داخلی سیاست میں اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

تیسری اہم بات وہ نئی پابندیاں بھی ہیں، جن کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کر رکھا ہے اور جو ابھی تک ممکن ہیں۔ مغربی دنیا ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شفافیت کا مطالبہ کر رہی ہے، جو ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن یہ مغربی رویہ بھی درست ہے کہ فی الحال پابندیوں کی نئی دھمکیوں سے احتراز کیا جائے۔ اس لئے کہ ان ممکنہ پابندیوں کے لئے سلامتی کونسل میں اکثریتی حمایت ابھی بھی یقینی نہیں ہے، اور پھر اس وقت ترکی اور برازیل بھی سلامتی کونسل کے رکن ہیں۔

اگر ایرانی صدر کے پیر کے روز دئے گئے بیان کو مد نظر رکھا جائے تو انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب پانچوں ویٹو طاقتوں اور جرمنی کے ساتھ نئے مذاکرات شروع ہونا چاہییں۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تہران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے۔ لیکن یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ ایران اس وقت اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے، جتنا کہ وہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ احمدی نژاد کی حکومت کو ملک میں بہت کم عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس لئے اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک منفی قوت کے طور پر پیش کرنا، جیسا کہ چند خاص طاقتیں کر رہی ہیں، آخر کار ایک غیر دانشمندانہ رویہ ہو گا۔

تحریر: اُلرِش پِک / مقبول ملک

ادارت: کشور مصطفےٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید