1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدارتی انتخابات: احمدی نژاد دوبارہ منتخب

رپورٹ: ندیم گل، ادارت: عدنان اسحاق13 جون 2009

ایران میں جمعہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق صدر احمدی نژاد جیت گئے ہیں۔ تاہم ان کے اعتدال پسند حریف میرحسین موسووی نے انتخابی نتائج سے قبل ہی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی فتح کا دعویٰ کیا۔

https://p.dw.com/p/I8ei
ایرانی صدر احمدی نژادتصویر: AP

وزارت داخلہ کے مطابق احمدی نژاد کو تقریبا 63 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ موسووی کو 33 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ایران میں 46 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہے۔ جبکہ ٹرن آؤٹ 85 فیصد بتایا گیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آئیت اللہ خامنائی نے احمدی نژاد کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے احمدی نژاد کے حریفوں پر زور دیا کہ انتخابی نتائج قبول کریں اور اشتعال انگیز رویہ ترک کریں۔

Iran Wahlen 2009
میرحسین موسووی کی ایک حامیتصویر: AP

موسووی نے انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں کا الزام بھی لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر لوگ حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکے جبکہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کم پڑ گئے۔

واشنگٹن میں نیشنل ایرانی امریکن کونسل کی صدر تریتا پارسی کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کے جس اکثریت سے جیتنے کی بات ہو رہی ہے وہ غیریقینی ہے۔ ایسا دھاندلی کے بغیر ممکن نہیں۔

نتائج موسووی کے حامیوں کے لئے مایوس کن رہے ہیں۔ وہ غم و غصے کے اظہار کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ہفتے کو تہران میں بیشتر مقامات پر موسووی کے حامیوں اور پولیس کے درمیان چھڑپیں بھی ہوئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات پر قابو پانے کے لئے دارالحکومت میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں نے احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو مغربی طاقتوں کے لئے مایوس کن قرار دیا ہے جو ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے پر قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ پیش رفت امریکی صدر باراک اوباما کی ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کے لئے بھی ٹھیک نہیں۔ تاہم ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج سے قبل اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران میں جاری بحث پر توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے دونوں ملکوں کو نئی راہیں متعین کرنے میں مدد ملے گی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ احمدی نژاد کی جیت سے ایران اور بھی خطرہ بن گیا ہے۔ لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کی انتخابی کامیابی ایران کے جوہری تنازعے کے جلد حل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دُنیا بھر کی نظریں ایران کے صدارتی انتخابات پر لگی ہیں جبکہ انتخابات کے ٹرن آؤٹ سے اندرون ملک بھی عوام کی دلچسپی کا اندازہ ہوا۔ ان انتخابات سے سیاسی دھڑوں میں پائے جانے والے اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔

Iran Wahlen 2009
سابق ایرانی وزیراعظم موسوویتصویر: MEHR

احمدی نژاد نے اپنے حریفوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے قومی تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ احمدی نژاد کے حریف سابق وزیر اعظم میر حسین موسووی کا کہنا ہے کہ قدامت پسند صدر نے اپنی انتہاپسند خارجہ پالیسی کے ذریعے ایرانیوں کی تذلیل کی۔

52 سالہ احمدی نژاد نے چار سال قبل 1979 کے اسلامی انقلاب کی بحالی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے تیل برآمد کرنے والے دُنیا کے چوتھے بڑے ملک کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے ملک کے جوہری پروگرام کی توسیع کی، ان مغربی الزامات کو رد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ ہولوکوسٹ کا انکار اور اسرائیل کے خلاف سخت بیانات کے ذریعے بھی انہوں نے عالمی طاقتوں کو ناراض کیا۔