1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدارتی انتخابات سے پہلے سیاسی بیانیہ بدلتا ہوا

William Yang/ بینش جاوید ٓAP
10 مئی 2017

ایک سابق ایرانی صدر کی طرف سے ایرانی سپریم لیڈر کی اتھارتی چیلنج کرنے سے لے کر پاسداران انقلاب کے کردار پر بحث سمیت ایرانی صدارتی انتخابات کے سلسلے میں اس مرتبہ معمول سے ہٹ کر بہت سے واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2cjvs
Iran - Wahl
تصویر: ANA

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک جائزے کے مطابق 19 مئی کو شیڈول صدارتی انتخابات کے سلسلے میں چلائی جانے والی انتخابی مہم کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے، جو معمول سے ہٹ کر تھے۔ پھر عوام کی طرف سے بھی ان انتخابات پر مختلف انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر بحث ہو رہی ہے بھلے اس کے لیے ایسے سوشل پلیٹ فارمز استعمال ہو رہے ہیں جن سے صارف کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس جائزے کے مطابق ان تمام غیر معمولی باتوں کے باوجود اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں کہ ایرانی سیاسی نظام میں کوئی قابل ذکر تبدیلی آئے گی۔ ایک ایسا نظام جس میں حتمی فیصلے کا اختیار مذہبی لیڈر شپ کے ہاتھ میں ہے۔

ابتداء میں سمجھا جا رہا تھا کہ موجودہ صدر حسن روحانی یہ انتخابات آسانی سے جیت جائیں گے۔ یہ حسن روحانی ہی کی حکومت تھی جس نے مغربی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا۔ ایران نے اپنی فضائی بیڑے کے لیے جہاز خریدنے کے لیے تو کئی بلین ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں مگر بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے ثمرات ابھی تک ایرانی عوام تک نہیں پہنچے اور اسی باعث عوام میں بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔

Iran Hassan Rouhani
حسن روحانی نے مارچ 2016ء میں کیے جانے والے میزائل تجربے پر تنقید کی، جس پر درج تھا: ’’اسرائیل کو مٹ جانا چاہیے‘‘تصویر: picture alliance/AP Photo/Iranian Presidency Office

روایتی انتخابی مہم سے ہٹ کر ایک اور پیشرفت جو موضوع گفتگو بنی، وہ حسن روحانی کی طرف سے ایک ٹیلی وژن انتخابی مباحثے کے دوران پاسداران انقلاب پر کی جانے والی تنقید بھی تھی۔ جمعہ پانچ مئی کو ہونے والے اس مباحثے میں روحانی نے مارچ 2016ء میں کیے جانے والے میزائل تجربے پر تنقید کی، جس پر درج تھا: ’’اسرائیل کو مٹ جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے پاسداران انقلاب پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے جوہری معاہدے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ پاسداران انقلاب کی طرف سے ان کے بیانات کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

پھر ان انتخابات کے سلسلے میں سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد بھی بطور امیدوار سامنے آئے۔ احمدی نژاد نہ صرف ہولوکاسٹ کا انکار اور اسرائیل کی تباہی کی پیشگوئی کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں ملکی جوہری پروگرام کو وسعت بھی دی تھی۔ گو ایرانی سپریم کونسل نے امیدوار بننے کی ان کی درخواست مسترد کر دی مگر انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے امیدوار نہ بننے کے مشورے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جو ایک طرح سے ایرانی سپریم لیڈر کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے برابر تھا۔

Iran | Mahmoud Ahmadinejad
احمدی نژاد نے خامنہ ای کی طرف سے امیدوار نہ بننے کے مشورے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi

صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ایرانی عوام میں ٹیلی گرام نامی موبائل فون ایپلیکیشن کافی معروف ہے۔ اس ایپلیکیشن کے تیار کرنے والوں کے مطابق اس کے 40 ملین فعال صارف صرف ایران ہی میں موجود ہیں۔ ایران کی کُل آبادی 80 ملین ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران بھر میں اس ایپلیکیشن کے استعمال کے رجحان کی موجودگی میں ملک میں یہ پہلے صدارتی انتخابات ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایران کے منفرد سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور تضادات ہی دراصل اس ملک میں رائج سیاسی نظام کے مستقبل کا تعین کریں گے۔