1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی لڑکیوں کی بچپن کی شادیوں کے بعد جبر سے عبارت زندگی

مقبول ملک شیریں شکیب
12 ستمبر 2017

ایران کے دیہی علاقوں میں اکثر لڑکیوں کی بچپن ہی میں شادی کر دی جاتی ہے، جس کے بعد انہیں جبر و استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ یہ عمل خاندانی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بھی بنتا ہے لیکن اسے ملکی قوانین کے تحت تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2jnsw
تصویر: Getty Images/G.Bouys

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کی شیریں شکیب اپنی ایک مفصل رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں خاص کر دیہی علاقوں میں بچپن کی یہی شادیاں سماجی سطح پر بہت سے خاندانوں میں ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ  جن بچیوں کی شادیاں بچپن ہی میں کر دی جاتی ہیں، وہ نہ صرف کم عمری میں جبر و استحصال سے عبارت زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں بلکہ ایرانی بچوں کی ایک پوری نسل اپنے بہتر مستقبل کے حوالے سے کسی بھی طرح کے بہتر امکانات سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔

قلیل المدتی خوشی، ایرانی خواتین فٹ بال میچ نہیں دیکھ سکتیں

ایپل نے معروف ایرانی ایپلیکشن ختم کر دیں

اس کی چند مثالیں دیتے ہوئے شیریں شکیب نے لکھا ہے کہ ایسی ہی ایک لڑکی لائلہ کی شادی محض چند بکریوں کے بدلے اس کے والدین نے اس وقت کر دی تھی، جب اس کی عمر صرف 17 برس تھی۔ اس ایرانی لڑکی کو ابھی تک یاد ہے کہ کس طرح دلہن کے طور پر شادی کی تقریب میں زبردستی لے جائے جانے سے قبل اس کے والد نے اسے بری طرح پیٹا تھا۔

لائلہ کا تعلق شمال مشرقی ایران میں اسفراین نامی چھوٹے سے شہر کے ایک نواحی گاؤں سے ہے اور اس کی کہانی ان بہت سی نابالغ ایرانی لڑکیوں کی داستانوں سے مختلف نہیں ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران کے دیہی علاقوں یا قبائلی روایات والے خطوں میں رہتی ہیں۔ ایران کے مختلف علاقوں سے ایسی رپورٹوں کا ملنا بھی کوئی نئی بات نہیں کہ وہاں دس سال تک کی عمر کی لڑکیوں کو بھی شادیوں پر مجبو رکر دیا گیا۔

تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق ایران میں 2016ء میں جتنی بھی شادیاں ہوئیں، ان میں سے 17 فیصد دلہنوں کی عمریں 18 برس سے کم تھیں۔

اس کے علاوہ ایران میں انسانی حقوق کے قومی مرکز نے سول رجسٹریشن کے ملکی ادارے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے 2015ء میں بتایا تھا کہ اس سے ایک برس قبل یعنی 2014ء میں کل 40 ہزار سے زائد ایرانی بچیاں ایسی تھیں، جن کی شادیاں 15 برس سے بھی کم عمر میں کر دی گئی تھیں اور سرکاری طور پر ان شادیوں کا باقاعدہ اندراج بھی کیا گیا تھا۔

ایران میں منشیات کی اسمگلنگ کے قوانین میں نرمی

نیا ایرانی قانون سزائے موت کے منتظر پانچ ہزار قیدیوں کی زندگی بچا لے گا

شیعہ مسلم اکثریت والے ملک ایران میں، جہاں شرعی احکامات کو ملکی قوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، شادی کے لیے لڑکیوں کی کم از کم قانونی عمر 13 برس اور لڑکوں کے لیے 15 برس ہے۔ یہی نہیں لڑکا لڑکی اگر اس سے بھی کم عمر کے ہوں، تو بھی متعلقہ فرد کے والد یا کسی دیگر قانونی سرپرست کی رضا مندی اور کسی مقامی عدالت کے جج کی طرف سے اجازت کے بعد ان کی قانونی شادی بھی ہو سکتی ہے۔

ایرانی لڑکی لائلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شمالی خراسان صوبے میں جہاں اس کا گاؤں ہے، وہاں کئی لڑکیوں کی شادی 11 برس تک کی عمر میں بھی کر دی جاتی ہے اور 16 یا 17 برس کی عمر تک پہنچتے ہوئے تو زیادہ تر لڑکیاں شادی شدہ ہوتی ہیں۔

لائلہ نے مزید بتایا کہ اس کے ایک بڑے بھائی نے، جو ایران کے دوسرے سب سے بڑے شہر مشہد میں رہتا ہے، حال ہی میں اپنی سب سے بڑی لیکن صرف 12 سالہ بیٹی کی شادی اس لیے کر دی کہ مالی طور پر وہ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے پانچ بچوں کی اچھی طرح پرورش کر سکے یا ان کی جملہ ضروریات پوری کر سکے۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں بچوں کی کم عمری میں کی جانے والی یہی شادیاں اس لیے بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں کہ بہت سے علاقوں میں ایسی شادیوں کی سرکاری طور پر رجسٹریشن کروائی ہی نہیں جاتی، جس کی وجہ سے خاص طور پر دلہنیں، جو کہ بچیاں ہی ہوتی ہے، اپنے جملہ قانونی حقوق سے بھی محروم ہی رہتی ہیں۔

ایرانی صدر کا بھائی کرپشن کے الزام میں گرفتار

امریکی سفری پابندیوں سے دہشت گردی اور بڑھے گی، ایرانی تنبیہ

سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ایران میں لڑکیوں کی بچپن کی شادیوں کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں: بچپن میں ہی لڑکی کے والدین کی طرف سے کسی لڑکے کے والدین سے کیے گئے وعدے کے نتیجے میں کی جانے والی شادیاں، وہ قبائلی شادیاں جہاں کسی نابالغ لڑکی کو کسی خونی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے مخالف قبیلے کے کسی فرد کی دلہن بنا دیا جاتا ہے اور تیسری قسم کم عمری کی وہ شادیاں ہیں، جن کے محرکات میں لڑکی کے والدین کی غربت سب سے نمایاں ہوتی ہیں۔

ایران میں جہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کی کافی مخالفت بھی کی جاتی ہے، اس رجحان کے برعکس اسی سال اگست میں شہری حقوق کے کئی سرگرم کارکنوں اور چند اہم سیاستدانوں نے کم از کم یہ مہم بھی شروع کر دی کہ ضروری قانونی ترامیم کے بعد ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 برس کی جانا چاہیے۔