1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران ایٹمی ڈیل کے بارے میں امریکی تسلی سے مطمئن ہیں‘

کشور مصطفیٰ5 ستمبر 2015

امریکی صدر نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا جمعے کو وائٹ ہاؤس میں پرجوش استقبال کیا۔ سعودی شاہ اپنے پہلے امریکی دورے پر ہیں۔ بظاہرتاخیر سے ہونے والی ملاقات میں مشرق وسطیٰ کے بحران اور ایرانی جوہری ڈیل پر گفتگو کی گئی۔

https://p.dw.com/p/1GRTk
تصویر: picture-alliance/dpa/Michael Reynolds/epa/Bernd von Jutrczenka

ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر باراک اوباما نے 79 سالہ سعودی فرمانروا سلمان کا استقبال وائٹ ہاؤس کے دروازے پر جا کر کیا جو امریکا اور سعودی عرب کے مابین ’’ دیرینہ دوستی‘‘ اور روایتی قربت کے اظہار کی ایک پرجوش علامت تھی۔ شاہ سلمان کا بطور سعودی فرمانروا امریکا کا یہ پہلا دورہ دراصل مئی کے ماہ کے لیے طے تھا تاہم ریاض حکومت کی طرف سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ شاہ سلمان ایک ایسے وقت میں امریکا پہنچے ہیں جب سعودی عرب کے دیرینہ حلیف ایران کے ساتھ امریکا سمیت بڑی مغربی طاقتوں کے مابین تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدے نے ریاض حکومت کو تشویش ہے۔ واشنگٹن اور ریاض کے مابین اس بارے میں کسی حد تک کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

شاہ سلمان اپنے اس دورے پر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات میں سعودی عرب کے ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید امریکی حمایت کے مطالبے کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل پر بھی بات چیت کی۔ انہوں نے نے واشنگٹن میں صدر اوباما سے ملاقات میں ایران سے جوہری معاہدے پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا۔

USA Saudi-arabischer König Salman bei Barack Obama
تجدید وفا کا اظہارتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Vucci

دریں اثناء اوباما اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی ملاقات کے بارے میں سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ ان کا ملک مطمئن ہے کہ عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

امریکا کے سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈیز سے منسلک ایک ماہر آنتھونی کورڈسمن نے اس بارے میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’ ایسی ملاقاتیں عموماً کسی پبلک بیان پر ختم ہوتی ہیں جو میٹنگ کے مثبت ہونے کا ممکنہ تاثر دیتا ہے۔ دونوں قومیں اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے باوجود ایک مضبوط اسٹریٹیجک بندھن میں بندھی ہوئی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے‘‘۔

Jemen Luftangriff Saudi-Arabien
سعودی عرب کی قیادت میں اتحادیوں کی بمباری سے یمن تباہ ہو چُکا ہےتصویر: Reuters/K. Abdullah

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاض اور واشنگٹن کا ایک دوسرے پر اسٹریٹیجک انحصار کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، عرب ریاست شام اور یمن کے بحران سے متعلق ان دونوں کے درمیان گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں امریکی صدر باراک اوباما نے تاہم نہایت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے بیں۔ اِسی تناظر میں اوباما کہا کہنا تھا،’’ عالمی امور کے تناظر میں یہ یقیناً نہایت چیلنجنگ اور کٹھن وقت ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال بہت ہی دشوار ہے‘‘۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے شاہ سلمان کے تخت نشین ہونے اور اُن کے بیٹے نائب ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد یمن میں ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کر دی تھی۔ اُدھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا اپنے خلیجی اتحادیوں کی ان کی ضرورت کے مطابق سیاسی اور فوجی مدد کرنے کے موقف پر قائم ہے۔