1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران بھاری مقدار میں یورینیم کی خریداری کی کوششوں میں

عاطف بلوچ، روئٹرز
25 فروری 2017

تہران حکومت کا منصوبہ ہے کہ وہ قازقستان سے اگلے تین برسوں میں ساڑھے نو سو ٹن خام یورینیم خریدے۔ ایران کو امید ہے کہ روسی مدد کے ساتھ وہ اس یورینیم سے جوہری ایندھن تیار کر پائے گا۔

https://p.dw.com/p/2YFWZ
Atomkraftwerk Buschehr im Iran
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh

ایرانی جوہری پروگرام سے وابستہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے ہفتے کے روز بتایا کہ ایران قازقستان سے بھاری مقدار میں یورینیم کے حصول کی کوششوں میں ہے تاکہ روسی مدد کے ذریعے اسے جوہری ایندھن کی تیاری میں استعمال کیا جا سکے۔

یہ منصوبہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015ء میں طے پانے والے تاریخی جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا کیوں کہ اس معاہدے میں ایران کو خام یورینیم کی خریداری سے نہیں روکا گیا ہے۔ معاہدے میں صرف یہ بات طے ہوئی تھی کہ ایران جوہری ہتھیار تيار نہیں کرے گا۔

Symbolbild - Ali Akbar Salehi
علی اکبر صالحی کے مطابق ایرانی یورنیم کو ایندھن کے لیے استعمال کرے گاتصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski

ایرانی خبررساں ادارے اِسنا کی یہ رپورٹیں ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں، جب اقوام متحدہ کے جوہری ادارے نے کہا ہے کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں قریب نصف کی کمی آ چکی ہے۔ جوہری ادارے کے مطابق ایران کے پاس افزودہ یورینیم کی مجموعی مقدار سے متعلق چھان بین جوہری معاہدے میں طے کردہ ضوابط کے تحت کی گئی۔

ایرانی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اسنا کے ساتھ بات چیت میں کہا، ’’قریب ساڑھے چھ سو ٹن یورینیم دو شپمنٹس کے ذریعے اگلے دو برسوں میں ایران تک پہنچے گی، جب کہ مزید تین سو ٹن تیسرے سال ایران لائی جائے گی اور یہ شپمنٹ افزودگی کے بعد قازقستان کو واپس کر دی جائے گی۔‘‘

صالحی نے بتایا کہ ایران پہلے ہی طے شدہ جوہری معاہدے کے حوالے سے عالمی جوہری ادارے سے خام یورینیم کی خریداری کی منظوری کے لیے درخواست کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’’اس سلسلے میں مبصر کمیٹی کے پانچ ارکان اجازت دے چکے ہیں، جب کہ برطانیہ نے گزشتہ ماہ اپنی رائے بدل لی، جس کی وجہ امریکی انتخابات اور مشرقِ وسطیٰ کے مسائل بتائی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایران کو برطانیہ کی جانب سے اجازت کا انتظار ہے۔ اس خبر پر فی الحال برطانیہ کی جانب سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

صالحی نے تاہم بتایا، ’’جوہری مذاکرات میں ہم نے اتفاق کیا تھا کہ ہم روس کے ساتھ مل کر جوہری ایندھن تیار کر سکتے ہیں۔ ہم نے ان سے اس سلسلے میں مدد طلب کی ہے اور روس کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ وہ ہمیں مشاورت اور معاونت فراہم کرے گا۔‘‘