1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایران سے سونا ترک وزیر کی مدد سے اسمگل کیا‘

30 نومبر 2017

سونے کی تجارت کرنے والے ایک ایرانی نژاد ترک شہری نے امریکی عدالت کے سامنے قبول کر لیا ہے کہ اس نے ایک ترک وزیر کی مدد سے سونے کی اسمگلنگ کی تھی۔ ترک حکام کے مطابق یہ بیان انقرہ حکومت کے خلاف ایک ’سازش‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/2oWiX
BdT Deutschland Goldbarren
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundesbank

ترک حکومت نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایرانی نژاد ترک تاجر نے جو دعوے کیے ہیں، وہ سابق وزیر کو بدنام کرنے کے لیے ہیں اور یہ بیانات دباؤ کے تحت دیے گئے ہیں۔ سونے کی تجارت کرنے والے اس ترک ایرانی تاجر رضا ضراب نے بدھ کے روز نیویارک کی ایک عدالت کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ پابندیوں کے باوجود انہوں نے ایران سے سونا اسمگل کرنے کے لیے ترکی کے سابق وزیر برائے اقتصادیات محمد ظفر شاغلیان کو رشوت دی تھی۔

اکیسویں صدی کا سونا، سمندر کی تہہ میں

ایران کے خلاف پابندیوں کے باوجود اس ملک کے ساتھ تجارت کرنے کی وجہ سے ضراب کے خلاف مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہونا ابھی باقی ہے لیکن وہ اس حوالے سے ایک مرکزی گواہ بھی ہیں۔ ایران کے خلاف عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کا اصل مقدمہ ترک بینکر محمد حقان عاطیلا کے خلاف عائد کیا گیا ہے۔ ان پر منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

Türkei Geschäftsmann Reza Zarrab
ضراب کے خلاف مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہونا ابھی باقی ہے لیکن وہ اس حوالے سے ایک مرکزی گواہ بھی ہیںتصویر: Getty Images/AFPO. Kose

اس نئی پیش رفت کے حوالے سے ترکی کے نائب وزیراعظم بِکر بوزداغ کا کہنا تھا، ’’ضراب نے دباؤ کے تحت یہ بیانات دیے ہیں۔‘‘ قبل ازیں ضراب یہ کہتے رہے ہیں کہ اس کیس کے پیچھے امریکا میں جلاوطن ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کی تحریک کا ہاتھ ہے۔ کرپشن کے اس کیس کا آغاز سن دو ہزار تیرہ میں ہوا تھا۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس وقت رجب طیب ایردوآن نے اسی اسکینڈل کو فتح اللہ گولن کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔

سونے کی عالمی مانگ: بھارت اور چين سر فہرست

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے کے اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد ترک حکومت نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا تھا لیکن بعدازاں سبھی ملزمان کو رہا کر دیا گیا تھا۔ یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سابق وزیر برائے اقتصادیات محمد ظفر شاغلیان اور دیگر تین وزراء مستعفی ہو گئے تھے۔

رضا ضراب نے امریکی عدالت کو بتایا ہے کہ مارچ دو ہزار بارہ سے مارچ دو ہزار تیرہ کے دوران انہوں نے ترک وزیر کو پینتالیس سے پچاس ملین یورو کے علاوہ بھی مزید سات ملین ڈالر رشوت ادا کی تھی۔ ترکی کے نائب وزیراعظم نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فیڈرل کورٹ کی یہ کارروائی ایک ’ڈرامہ‘ ہے اور اس سے اشارہ ملتا ہےکہ یہ ترک حکومت کے خلاف بنایا گیا ایک منصوبہ ہے۔

 انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کی ملکی اپوزیشن جماعت بھی اس کے پیچھے ہے۔ قبل ازیں ترک اپوزیشن جماعت ای ایچ پی کے لیڈر نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ترک صدر کے رشتہ داروں نے ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔