1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: صدارتی الیکشن کے نتائج اور ہنگامے

عابد حسین / ادارت: کشور مصطفیٰ14 جون 2009

ایرانی صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کے حامیوں کی جانب سے ایرانی دارالحکومت میں پرتشدد ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوا جو امکاناً طول پکڑتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ انتظامی معاملات خاصے سخت ہیں۔

https://p.dw.com/p/I8wh
میر حسین موسوی کی حمایتی خاتونتصویر: AP

ایران میں صدارتی الیکشن کے نتائج کے بعد میر حسین موسوی کے ہزاروں ناراض اور غصیلےحامیوں نے اپنے رنج کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی انتظامی پولیس کےساتھ جھڑپوں میں حصہ لیا۔ اِن افراد کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ تین ہزار کے قریب افراد نے خفیہ پولیس کے دفتر کوبھی نشانہ بنایا۔ چار پولیس کی موٹر سائیکلوں کو مظاہرین نے نذرِآتش کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا مرکز تہران کا مرکزی چوک، ولی عصر سکوائر تھا۔ مظاہرین کے خیال میں اُن کےلیڈر کی کامیابی کو چوری کر لیا گیا ہے۔ تہران کے مرکزی علاقے میں واقع میر حسین موسوی کے دفتر میں سب سے پہلے اُن کے حامی جمع ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ مظاہروں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پولیس کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا اور کئی افراد کو ہتھکڑیاں بھی لگائی گئیں۔ میر حسین موسوی نے اپنے حامیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تشدد کے راستے کو مت اپنائیں۔

Iran Wahlen 2009 Gewaltsame Ausschreitungen
تہران میں انتخابی نتائج کے بعد مظاہرین کی جانب سے سڑک پر لگائی ہوئی آگتصویر: AP

ایران کے وزیر داخلہ صادق محصولی کا مظاہروں کے بعد بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران میں کسی احتجاج یا مظاہرے کے لئے سرکاری اجازت لینا لازمی ہوتا ہے لیکن ابھی تک کسی نے بھی اجازت حاصل کرنے کی درخواست جمع نہیں کروائی ہے اِس لیئے یہ تمام مظاہرے غیر قانونی ہیں۔

پرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت نے آپوزیشن کے ایک اخبار کے دفتر کو بند کردیا ہے۔ کئی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی ویب سائٹ تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ اندرونِ تہران موبائل فون سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کو یقین ہے کہ صدارتی الیکشن کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں کے کسی کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ کئی مظاہرین میر حسین موسوی کا انتخابی رنگ سبز کو پہناوے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ مظاہرین آمریت ختم کرو کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

Iran Wahlen 2009 Gewaltsame Ausschreitungen
تہران کی سڑکوں پر میر حسین موسوی کے حامی حکومتِ وقت کے خلاف نعرہ زنی کرتے ہوئے۔تصویر: AP

میر حسین موسوی نے انتخابی نتیجے کو معمہ قرار دیا ہے۔ موسوی کا مزید کہنا ہے کہ اُن کی حامیوں کے اکثریتی مقامات پر بیلٹ پیپر کی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اِس وجہ سے لاکھوں افراد اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ موسوی نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے انتخابی نتیجے پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے انتخاب سے اُن کے ملک کے اندر جمہوریت کی جگہ جبریت اور ظلمت کا دار دورہ ہو سکتا ہے۔ صدارتی الیکشن میں عام ووٹرز کو حیرانی اِس لئے بھی ہو رہی ہے کہ احمد نژاد کو اُن مقامات پر بھی زوردار کامیابی حاصل ہوئی ہے جو میر حسین موسوی کا گڑھ تصور کئے جاتے تھے۔

Iran Wahlen 2009 Gewaltsame Ausschreitungen
میر حسین موسری کے حامیوں کا ایک اور گروپتصویر: AP

دوسری جانب احمدی نژاد نے شاندار کامیابی پر اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کیا۔ ایرانی صدر نے آج اپنے حامیوں کو ولئ عصر سکوائر میں جمع ہونے کی تلقین کی ہے جس سے وہ خطاب کریں گے۔

سرکاری نتیجے کے مطابق احمدی نژاد کو ڈالے گئے ووٹوں میں سے ترسٹھ فی صد حاصل ہوئے ہیں جب کہ میر حسین موسوی کو صرف چونتیس فی صد ووٹ ملے ہیں۔

ایران کے اہم ترین مذہبی لیڈر آیت اُللہ اُلعُظمیٰ خامنائی نے احمدی نژاد کی کامیابی کا خیر مقدم کیا ہے اور عوام کو اُن کا مکمل ساتھ دینے کی تلقین کی ہے۔ اپنے بیان میں عوام پرسکون رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے دشمن کامیابی کی خوشیوں کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔