1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: مزید قیدی رہا

رپورٹ:عابد حسین ، ادارت : امجد علی29 جولائی 2009

جون میں ہونے والے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد شروع ہونے والوں ہنگاموں کے دوران گرفتار کئے جانے والے سینکڑوں افراد میں سے مزید ایک سو چالیس کو تہران میں رہا کردیا گیا۔ اپوزیشن نے اِس کو بھی ملمع سازی قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/IzBx
ایران میں مظاہروں میں شریک ایک خاتونتصویر: AP

تہران میں اب بھی سینکڑوں مزید افراد رہائی کے منتظر ہیں، جن میں سے بعض کے بارے میں حکام کا خیال ہے کہ وہ ایران دشمن گروپوں کے ایما پر گھناؤنے جرائم کے مُرتکب ہوئے ہیں۔ ایک سو چالیس افراد کی رہائی امکاناً سب سے طاقتور مذہبی راہ نما آیت اُللہ خامنائی کی جانب سے قیدیوں کے حقوق کی پاسداری کے بیان کی روشنی میں ہو سکتی ہے۔ خامنائی نے کہری زاک جیل کو بند کرنے کا بھی حکم صادر کیا ہے۔ معمولی جرم پر گرفتار افراد کو رہا کرنے کا باضابطہ حکم جیلوں کے نگران آیت اُللہ محمود ہاشمی شاہ رودی نے جاری کیا تھا۔احمدی نژاد نے بھی رہائی کی مناسبت سے شاہ رودی سے بات کی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اِس غیر معمولی بیان اور اُس پر عمل کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایرانی لیڈران دباؤ کا شکار ہیں۔ گزشتہ روز ایرانی حکام نے بتایا کہ جون میں صدارتی الیکشن کے بعد شروع ہونے والے ہنگاموں میں تیس افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ اِس سے قبل ایرانی میڈیا اور حکام یہ تعداد بیس بیان کرتے تھے۔

Mahmoud Ahmadinejad während seiner Rede in Teheran
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کو اپنی حکومت کی دوسری مدت میں کئی اطراف سے دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔تصویر: AP

رہائی پانے والوں میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکُن شادی صدر بھی شامل ہیں۔ وہ سترہ جولائی کو گرفتار کی گئی تھیں۔ اُن کی رہائی کی خبر اُن کے حلقے کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری کی گئی ہے۔

صدارتی الیکشن کے بعد اپوزیشن کے گرفتار شدہ حامی کارکنان کے حوالے سے بھی حکومت کو خاصی تنقید کا سامنا ہے۔ تازہ افراد کی رہائی کو بھی ایرانی اپوزیشن نے ملمع سازی قرار دیا ہے۔ اُن کا اب بھی مؤقف ہے کہ وہ حکومتی پالیسی میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ مقامی افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں آیت اُللہ خامنائی کا بیان حکومتی عمل میں اُن کی مداخلت ہے اور یہ کام وزیر داخلہ کو کرنا تھا، جو تساہلی برت رہے تھے۔

Jugendliche im Gefängnis in Teheran
ایرانی دارالحکومت میں واقع ایوین جیل کی ایک فائل فوٹو: سن دو ہزار تین میں گرفتار ہونے والے طلبا ایک کوریڈور میں بیٹھے ہوئے ہیں۔تصویر: AP

دوسری جانب ایرانی سیاسی منظر نامہ بظاہر گھمبیر لگتا ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اگلے دِنوں میں دوسری مدت کے لئے حلف اٹھانے والے ہیں۔ اُن کو کئی معاملات پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اِس کے علاوہ ایرانی اشرافیہ بھی حکومت پر دباؤ مسلسل بڑھائے ہوئے ہے۔ اِس مناسبت سے ایرانی ٹیلی ویژن پر ایسی خبریں بھی نشر کی جا رہی ہیں:

آیت اُللہ رفسنجانی کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی پیشوا سے اُن کے تجربے اور نظریات کے تناظر میں امید رکھتے ہیں کہ وہ اِس بحران سے نکلنے کا راستہ تجویز کریں گے۔ کم مدتی حل کے حوالے سے میرا مؤقف وہی ہے جو میں نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں بیان کیا تھا۔

احمدی نژاد کے مقابلے میں اپوزریشن صدارتی امیدواروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے ایک بار پھر حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کے احترام اور یاد میں ایک ریلی کا انتظام کرنا چاہتے ہیں اور حکومت اُس کی اجازت دے۔ فارس خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزارت داخلہ نے اِس درخواست کو ایک بار پھر مسترد کر دیا ہے۔