1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں سیاسی ہلچل، مذہب وسیاست کی خلیج

3 جنوری 2010

ایران میں متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تسلسل سے ہونے والے ان واقعات پر نظر ڈالی جائے تو ایران میں سیاست اور مذہب کے درمیان ایک واضح خلیج دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/LJI3
فائل فوٹوتصویر: AP

تہران حکومت اپنے مخالفین سے نمنٹنے کے لئے انتہائی سخت انداز اپنائے ہوئے ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی کے کئی قریبی مشروں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس مرتبہ مظاہرین نے عاشورے کے دن کو صدر احمدی نژاد کے خلاف احتجاج کے لئے استعمال کیا۔ مغربی ممالک اسلامک ریپبلک آف ایران کو ایک کٹر مذہبی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ اصطلاح کافی مبہم ہے۔

Iran Wahlen Wahllokal in Teheran Frau
فائل فوٹوتصویر: AP

ایران میں قائم حکومت کی ساکھ کو گذشتہ چند برسوں کے دوران کافی نقصان پہنچا ہے اور وہاں کے سیاسی رجحانات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ حکومت اور شیعہ مذہبی رہنماؤں کے درمیان خلیج نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ ایران اب ایک مذہبی ریاست سے ایک قوم پرست فوجی ریاست میں بدلتا دکھائی دیتا ہے۔

اس کی کئی طرح سے مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ایک طرف تو انقلابی گارڈز اور باسیج ملیشا کا سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ دوسری جانب ایرانی پارلیمان میں کٹر مذہبی شخصیات کی تعداد بھی تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔

ایران کے متنازعہ صدارتی انتخابات پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ’سبز رنگ‘ استعمال کیا، جو اسلام کا رنگ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف احمدی نژاد نے ایرانی پرچم کو اپنی مہم کے دوران استعمال کیا، جو مذہبی کے بجائے قومی علامت ہے۔

اسی طرح اگر ایران کی داخلی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ صدر احمدی نژاد کا ساتھ صرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای دے رہے ہیں۔ جبکہ ہاشمی رفسنجانی اور محمد خاتمی جیسی شخصیات مہدی کروبی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان تینوں کا شمار ایران کے مشہور ترین علمائےدین میں ہوتا ہے لیکن ان کا رتبہ آیت اللہ خامنہ ای سے کم ہی ہے۔ ملک میں موجود دس بڑے آیت اللہ میں سے چار اپوزیشن کے حمایتی ہیں جبکہ ان میں سے کسی نے بھی کھل کر قدامت پسند صدر کی حمایت نہیں کی۔ حال ہی میں انتقال کر جانے والے آیت اللہ علی منتظری صدر پر تنقید کرنے والوں میں سے ایک تھے اور اب ان کے جانشین یوسف سنائی کا موقف بھی منتظری سے مختلف نہیں ہے۔

Demonstration in Deutschland zu den Wahlen in Iran
فائل فوٹوتصویر: AP

ایران کی موجودہ صورتحال میں ایران میں مذہبی اور سیاسی مفادات میں فرق واضح نظر آ رہا ہے۔ یہ فرق چند ماہ پہلے اُس وقت اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آیا، جب گرفتار کئے گئے اپوزیشن حامیوں، مردوں اور خواتین ، دونوں کے ساتھ دوران حراست زیادتی کے واقعے منظرِ عام پر آئے۔ ان خبروں نے مذہبی حلقوں کو، جو اِس طرح کے طریقہء کار کو اسلامی اقدار کے منافی سمجھتے ہیں، موجودہ سیاسی قیادت کے بارے میں اور بھی شک و شبے میں مبتلا کر دیا ہے۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : امجد علی