ایران کو رائس کی دھمکی
11 جنوری 2007عراقی شہر اربیل میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر امریکی فوج نے حملہ کر کے وہاں کے 5 ملازمین کو گرفتار اور کمپیورٹرز سمیت تمام کاغذات کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ایران کی وزارت خارجہ نے احتجاجا تہران میں سویٹزر لینڈ اور عراق کے سفیر کو طلب کر لیا ہے اور ان سے اس واقعے کی وضاحت طلب کی ہے۔سوئٹرز لینڈ تہران میں امریکی مفادات کا حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے ایران کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران نے عراق میں استحکام لانے کے لئے واشنگٹن کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی تو امریکی خاموش نہیں بیٹھے گا۔
رائس نے کہا کہ امریکہ ایران کی علاقائی جارحیت کو ختم کرنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہے لیکن کنڈولیزا رائس نے اربیل میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر امریکی فوجی حملے پر اظہار نظر کرنے سے اجتناب کیا ہے۔
انہوںنے آج مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندوں کو انٹریو دیتے ہوئے بھی ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ صدر بش نے بھی اپنی حالیہ تقریر میں ایران کے خلاف نہایت سخت لب و لہجہ استعمال کیا ہے۔
صدر بش نے نہایت سخت الفاظ میں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ امریکہ عراق میں اس کے دشمنوں کے لئے جدید ہتھیار فراہم کرنے والے مراکز کو نیست و نابود کردے گا۔ اسی سلسلے میں صدر بش نے مشرق وسطی کے علاقے میں اپنا فوجی بحری بیڑہ بھیجنے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار وں سے دور رکھنے اور علاقے میں اس کے قبضے کو روکنے کے لئے دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرے گا۔
کنڈولیزارائس نے اس بات کو بھی قبول کیا ہے کہ عراق میں چار سال سے جاری جنگ اور وہاں پر استحکام لانے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد بہت سے لوگوں کو اس بات پر شک ہے کہ کیاعراق کے سلسلے میں صدر بش کی نئی پالیسی موثر ثابت ہو گی یا نہیں؟
مبصرین کا خیال ہے اربیل شہر میں ایرانی قونصلیٹ پر امریکی فوج کا حملہ ، امریکہ کی طرف سے ایران کو واضح دھمکی ہے اور اس سے ایران کے خلاف امریکہ کی کسی بڑی کاروائی کا عندیہ ملتا ہے۔روس کے بھی ایک اعلی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ مشرق وسطی میں پیٹریاٹ میزائل نصب کرنے اور وہاں پر فوجی بحری بیڑہ پہنچانے کے امریکی منصوبے کا اصل ہدف ایران ہی ہے۔