1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کا امتحان، سولہ اپریل کا ریفرنڈم

عابد حسین
14 اپریل 2017

ترکی میں سولہ اپریل کو ہونے والا ریفرنڈم ملکی دستور میں غیر معمولی اثرات کا حامل ہو گا۔ تقریباً ایک صدی قبل اتاترک کی قیادت میں قائم ہونے والی جدید ترک جمہوریہ کے دستور میں وسیع تر تبدیلیاں لائیں جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/2bEOq
Kommunalwahlen Türkei Erdogan 31.03.2014 in Ankara
تصویر: Reuters

ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کی مہم میں ترک صدر نے عوام کو نئے ہوائی اڈے، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کے وعدے کیے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی ورکنگ کلاس کو زیادہ سے زیادہ خوش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایردوآن ترکی کی اکثریتی ورکنگ کلاس میں انتہائی مقبول ہیں۔

 ایروآن استنبول کی ایک جام لیکا پہاڑی پر ایک بڑی مسجد تعمبر کر رہے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر میں شہر کی مساجد کی تنظیم مالی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تنظیم کے صدر ارحین کولُونک کا کہنا ہے کہ پندرہ برس قبل جو ناممکن تھا، ایردوآن نے وہ ممکن کر دکھایا اور اُن کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ایک عام آدمی کے دل کو چھو لیتے ہیں۔

ریفرنڈم کی مہم کے دوران ترک عوام میں تقسیم دیکھی جا رہی ہے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ ایردوآن کو اس ریفرنڈم میں تاریخی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ مہم ترکی سے باہر کئی ملکوں میں آباد ترک شہریوں تک پھیلانے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن یورپ میں آسٹریا اور جرمنی کے انتظامی اقدامات نے رجب طیب ایردوآن کو ایسے خفا کر دیا کہ انہوں نے ان اقدامات کا موازنہ نازی دورِ حکومت کے ساتھ کر دیا۔

Türkei Erdogan wirft Deutschland «Nazi-Praktiken» vor
ترک صدر ایردوآن ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/AA/M.Cetinmuhurdar

اُن کے مخالفین کا خیال ہے کہ ایردوآن صدر کے منصب میں زیادہ سے زیادہ اختیارت حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں اور یہ انجام کار آمریت کی صورت میں عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایردوآن کو اپنے ہاتھ میں زیادہ سے زیادہ قوت جمع کرنے کا نشہ ہو گیا ہے اور یہ سلسلہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں ایک صدی قبل قائم کی گئی سیکولر جمہوری ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنا عرصہ وہ اقتدار پر براجمان رہیں گے، وہ ترکی کو مغربی جمہوری اقدار سے دور لے جاتے جائیں گے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریفرنڈم کے اثرات صرف ترکی کے اندر محدود نہیں ہوں گے بلکہ کئی دوسرے ملکوں میں ان کا اثر محسوس کیا جائے گا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایردوآن ایک طاقتور صدر کی حیثیت سے یورپی یونین کے ساتھ مہاجرین کو روکنے کی ڈیل پر کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی شامی تنازعے پر بھی اپنی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دے سکتا ہے۔