1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کے نامناسب بیان پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا، میرکل

6 مارچ 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے پہلی مرتبہ انقرہ حکومت کی بیان بازی کا باقاعدہ جواب دیتے ہوئے کہا  ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے جرمنی پر’نازی طریقہ کار‘ اپنانے کا الزام انتہائی نا مناسب ہے۔

https://p.dw.com/p/2Yjkz
Tunesien  Angela Merkel
تصویر: Reuters/Z.Souissi

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے جرمنی پر’نازی طریقہ کار‘ اپنانے کے بیان کو بھرپور انداز میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے نامناسب بیان پر سنجیدگی سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول نازی دور سے موازنے یا برابری کی انہیں کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی، ’’افسوس کی بات ہے کہ اس طرح نازی دور میں ظلم و جبر کا شکار ہونے  والوں کے درد کا ایک طرح سے مذاق اڑایا گیا ہے۔‘‘۔ میرکل نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انہیں ترکی میں سولہ اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کے لیے جرمنی میں مہم چلانے کا بھی کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔

Deutschland Köln  KoelnArena Auftritt Erdogan Publikum
تصویر: Getty Images/V. Rys

 اس موقع پر جرمن چانسلر نے واضح کیا کہ مختلف انداز میں دونوں ملک ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں۔ جرمنی نے ترک سیاستدانوں کو ایردوآن کے اختیارات میں اضافے کے اس ریفرنڈم کے حوالے سے سیاسی اجتماعات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، جس پر صدر ایردوآن نے جرمن حکومت پر ’نازی طریقہ ہائےکار‘ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

جرمنی اور ترکی کے مابین کئی شعبوں میں شدید قسم کا اختلاف رائے پایا جاتا ہے، ان میں آزادی صحافت اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں جیسے معاملات سر فہرست ہیں۔ اپنے بیان میں چانسلر میرکل نے ترکی میں زیر حراست جرمن صحافی ڈینیز یوچیل کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوچیل کے رہائی کے لیے پوری جرمن حکومت کا موقف ایک ہے۔ جرمن اخبار ڈی ویلٹ کے نامہ نگار کو فروری کے وسط میں استنبول میں گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریل دونوں ملکوں کے مابین تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کی بنیاد کو ختم کرنے کی اجازت کسی بھی صورت نہیں دی جانی چاہیے۔ گابریل کے مطابق  اگر کوئی جرمنی میں  کسی جلسے  سے خطاب کرنا چاہتا ہے تو اُسے قانون کے احترام اور شائستگی کو لازمی طور پر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔