1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایس ایم ایس پر ٹیکس، پاکستانی نوجوان ناراض

19 جون 2009

پاکستان کے وفاقی بجٹ میں موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے تحریری پیغامات پر لگائے جانے والے حالیہ ٹیکس کے خلاف نوجوان طبقے میں کافی غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/IUu8
دنیا بھر میں SMS نوجوانوں میں مقبول ترین طریقہ ء پیغام رسانی سمجھا جاتا ہےتصویر: AP

جمعہ کے روز لاہور پریس کلب کے باہر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ایس ایم ایس پر عائد کئے جانے والے ٹیکس کے خلاف بھر پور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پروگریسو یوتھ فرنٹ نامی نوجوانوں کی ایک تنظیم کے زیر اہتمام ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں ’’ ایس ایم ایس پر ٹیکس نا منظور ‘‘، ’’ نوجوانو ں کو جینے دو ‘‘ اور ’’نوجوان مخالف بجٹ نا منظور‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔

اس موقعے پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پروگرویسو یوتھ فرنٹ لاہور کے کوآرڈینیٹر کاشف اسلم نے بتایا کہ حکومت نوجوانو ں کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے دستیاب سہولتیں بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق تین پیسے کے ایس ایم ایس پر بیس پیسے ٹیکس لگانا صریحاً ظلم ہے۔ کاشف اسلم کا کہنا تھا کہ موبائل ایس ایم ایس سستی پیغام رسانی کا ذریعہ تھا۔ اس پر ٹیکس عائد ہونے سے نوجوان مہنگی ٹیلیفون کالیں کرنے پر مجبور ہوں گے جس سے ان پر اقتصادی بوجھ میں مذید اضافہ ہو جائے گا۔ کاشف نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ حکومت ایک طرف تو ڈیفنس بجٹ میں پندرہ سولہ فیصد اضافہ کرنے جا رہی ہے لیکن دوسری طرف وہ اپنے شہریوں کو جائز سہولتوں سے بھی محروم کر رہی ہے۔

لاہور اکنامک کوریسپانڈنٹ ایسو سی ایشن کے صدر اور ماہر اقتصادیات منصور احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اگر ایک کمپنی دس پیسے میں ایس ایم ایس کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے تو اس پر بیس پیسے کا ٹیکس عائد کرنا جائز ٹیکسیشن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے ۔ان کے مطابق دو سو فیصد ٹیکس لگانا انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ عمل آزادی اظہار کے انسانی حق پر قدغن لگانے کے متراف بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر صحیح معنوں میں ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے تو اسے ان لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا چاہیے جن سے وہ ٹیکس وصول نہیں کر پا رہی ہے۔ ان کے مطابق زراعت ، سروسز اور دیگر کئی شعبوں پر ٹیکس عائد کر کے حکومت اس رقم سے کئی سوگنا زیادہ پیسہ اکٹھا کر سکتی ہے جتنا ریو نیوایس ایم ایس کے ذریعے اکٹھا ہونے کا امکان ہے۔

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے سے حکومت کو کوئی بہت زیادہ ریونیو اکٹھا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر بابر غوری ایک ٹیلی ویثرن پر یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ یہ ٹیکس اس وجہ سے لگایا گیا ہے کہ بعض لوگ اس سہولت کو حکومت کے خلاف پیغامات ایک دوسرے کو بھجوانے کیلئے بھی استعمال کر رہے تھے۔

نوجوان دانشور سلیم ملک کہتے ہیں کہ حکومتوں نے اس بات پر یقین کر لیا ہے کہ ایس ایم ایس حکومتوں کے خلاف لطیفے اور دیگر مزاحیہ پیغامات کی ترسیل کاذریعہ بنتے رہے ہیں۔ اسی لئے پرویز مشرف کے دور میں بھی ایس ایم ایس کی سہولت کو محدود کرنے، اس پر پابندی لگانے یا اسے سنسر کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن مشرف حکومت بوجو ہ اس پر عمل در آمد نہیں کرا سکی تھی۔ اب موجودہ عوامی حکومت نے اس سلسلے میں ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کا جو اقدام اٹھایا ہے اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ان کے مطابق ایس ایم ایس نوجوانو ں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ ایس ایم ایس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی نوجوانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یکم جولائی کو پاکستان میں ایس ایم ایس با ئیکاٹ ڈے منائیں گے اور ایس ایم ایس پر لگنے والے ٹیکس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس دن پورے پاکستان میں ایس ایم ایس نہیں کئے جائیں گے تا کہ حکومت کے ایوانوں میں نوجوان اپنی احتجاجی آواز پہنچا سکیں۔ اس طرح موبائل فون کی کمپنیوں کو جو مالی نقصان ہو گا تواس کی وجہ سے وہ بھی اس ٹیکس کو ختم کرانے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی کوششیں کریں گی۔

ایک نوجوان کے مطابق موبائل فون کمپنیاں پہلے ہی ہر فون کارڈ ری چارج کرنے پر پندرہ فیصد رقم وصول کر رہی ہیں جس میں سے ایک حصہ حکومت کو ٹیکس کی صورت میں جا رہا ہے۔ شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے بتایا کہ ایس ایم ایس، ای میل، انٹرنیٹ یا ابلاغ کے جدید ذرائع کو ٹیکس لگا کر محدود کرنے کی کوششوں کو دنیا بھر میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ ان کے مطابق حکومت اگر اپنے خلاف بھیجے جانے والے ایس ایم ایس کی وجہ سے پریشان ہے تو اس کی تحقیقات کرائے لیکن اس جرم کی سزا ان کروڑوں معصوم لوگوں کو نہیں ملنی چاہیے جو اپنی جائز ضروریات کے لئے پیغام رسانی کا یہ سستا ذریعہ استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : عاطف توقیر