1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایٹمی توانائی ایجنسی اور بھارت کے درمیان معاہدہ

ندیم گل2 فروری 2009

بھارت اپنی تیز تر اقتصادی ترقی کو دیرپا بنانے کا خواہش مند ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نئی دہلی حکومت ایٹمی توانائی کا استعمال بھی بڑھانا چاہتی ہے۔

https://p.dw.com/p/Gljm
ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مرکزی دفتر کے باہر ایجنسی کا جھنڈا لہرا رہا ہےتصویر: AP

انہی کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے اور بھارت کے درمیان پیر کو ایٹمی منصوبوں کی معائنہ کاری کا ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ اس سمجھوتے پر دسختط ویانا میں آئی اے ای اے کے مرکزی دفاتر میں کئے گئے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق یہ سمجھوتہ اس معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت نئی دہلی کے ساتھ ایٹمی مادوں کی تجارت پر 34 سالہ پابندی ختم ہو جائے گی۔

یہ معاہدہ امریکہ کی سربراہی میں طے پانے والے ایک سمجھوتے کی لازمی شرط کا نتیجہ ہے جس کے تحت ایٹمی ممالک بھارت کو غیر عسکری مقاصد کے لئے نیوکلیئر مواد اور ٹیکنالوجی فراہم کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ معاہدہ اسی وقت قابل عمل ہو گا جب بھارت اس کی توثیق کرے گا۔

پیر کو طے پانے والے معاہدے کے تحت نئی دہلی کو 2014 تک اپنی 22 اعلانیہ طور پر غیر عسکری جوہری تنصیبات میں سے 14 معائنے کے لئے کھولنا ہوں گی۔

آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد ایل بارادائی نے کچھ عرصہ قبل اس معاہدے کے مسودے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: "میں سمجھتا ہوا کہ یہ معاہدہ نہ صرف بھارت کے لئے اچھا ہے بلکہ پوری دنیا اور ایٹمی عدم پھیلاؤ پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ہم سب کی ان مجموعی کوششوں کے لئے اچھا ہے جن کے تحت ہم دُنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔"

سابق امریکی صدر بش کے دور حکومت میں واشنگٹن کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس معاہدے سے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوری قوت کے ساتھ ایک اسٹرٹیجک شراکت کی راہ پیدا ہوگی اور اس سے اربوں ڈالر مالیت کی نیوکلیئر مارکیٹ بھی کھل جائے گی۔

بھارت نے ابھی تک این پی ٹی یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے جس کی وجہ سے بعض ممالک نے اس معاہدے پر کڑی تنقید کی ہے۔ بیشتر یورپی ممالک بھی اس معاہدے پر خوش نہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ نئی دہلی نے اپنی جوہری تنصیبات معائنے کے لئے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا اطلاق عسکری تنصیبات پر کیوں نہیں ہوتا۔

تاہم نیوکلیئر سپلائرز گروپ بھارت کو پہلے ہی این پی ٹی پر دستخط کرنے کی شرط سے مستثنیٰ کرنے پر رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔ 45 رکن ممالک پر مشتمل یہ ادارہ جوہری ٹیکنالوجی کی فروخت اور برآمد کے لئے ذمے دار ہے۔ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے کہ بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کرنے کی شرط سے آزاد کردیا جائے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان پہلے ہی جوہری تعاون کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ تاہم نئی دہلی کی جانب سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے وجہ سے امریکی کانگریس میں بھی اس سمجھوتے کو تنقید کا سامنا رہا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے بعض مبصرین کے حوالے سے بتایا ہے ہے کہ آئی اے ای اے اور بھارت کے درمیان حالیہ معاہدے سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کی عالمی کوششوں کی نفی ہوئی ہے۔ ان مبصرین نے ایٹمی طاقتوں پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کی یہ کوششیں تجارتی اور سیاسی مفادات کے حصول کا حصہ ہیں۔