1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک تصویر، جس نے پورا یورپ جھنجھوڑ ڈالا، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

Alexander Kudascheff / امجد علی3 ستمبر 2015

یہ تصویر پہلے پہل سوشل میڈیا ویب سائٹس پر شائع ہوئی اور پھر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ میں دیکھی جانے لگی۔ ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر الیگزانڈر کُوڈاشیف نے اپنے ایک تبصرے میں اسی تصویر کو موضوع بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GQZC
EINSCHRÄNKUNG IM TEXT BEACHTEN! Dieses Bild soll nur als Artikelbild zum Kommentar des Chefredakteurs gebucht werden Türkei Bodrum Aylan Kurdi
تصویر: Reuters/Stringer

الیگزانڈر کُوڈاشیف لکھتے ہیں: ’’ساحل پر ایک بچہ مردہ حالت میں پڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ہولناک تصویر ہے۔ یہ تصویر ایک ناکام اور ہلاکت خیز فرار کی عکاسی کرتی ہے۔ خانہ جنگی کے باعث پارہ پارہ شام سے فرار کی۔ اس تصویر نے صرف ایک لمحے کو قید کیا ہے لیکن شام میں یہ حالات روزمرہ معمول کا حصہ ہیں۔ اس تصویر میں خوفناک خانہ جنگی کی پوری دہشت سمٹ آئی ہے۔

یہ ایسی تصویر ہے، جو دلوں کے تار چھوتی ہے۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے، جسے دیکھ کر دل میں ایک ٹِیس سی اٹھتی ہے۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے، جو ہمیں اپنی بے بسی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے، جو سوچنے پر ابھارتی ہے۔اور ہمیں گُنگ کر دیتی ہے۔

اسے نہ شائع کرنے کے لیے معقول وجوہات موجود ہیں

یہ ایک ایسی تصویر ہے، جسے دیکھ کر ہم سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اس سال کی بلکہ پورے عشرے کی اہم ترین تصویر ہے۔ یہ تصویر اُن سارے حالات کی نمائندگی کرتی ہے، جو ان مہینوں میں ہمیں متاثر کر رہے ہیں، ہمارے دلوں کو چھُو رہے ہیں اور غم و غصہ دلا رہے ہیں۔ اور یہ ایک خوفناک تصویر ہے۔ کیا اسے دیکھا، دکھایا جانا چاہیے، کیا ڈوئچے ویلے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسے دکھائے؟ اس کو نہ دکھانے کے لیے بھی قائل کر دینے والی اور سوچنے پر مجبور کر دینے والی وجوہات موجود ہیں۔

یہاں بات ہے، اخلاقیات کی، اس بچے کے وقار کی اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے جائز طور پر محتاط ردعمل روا رکھنے کی۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے، اسے دکھانے کا۔ سنسنی پھیلانے کے لیے نہیں، نہ ہی ’کلِکس‘ کی تعداد بڑھانے کے لیے، نہ ہی ٹی وی پر زیادہ سے زیادہ ناظرین تک پہنچنے کے لیے۔

Alexander Kudascheff DW Chefredakteur Kommentar Bild
ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر الیگزانڈر کُوڈاشیفتصویر: DW/M. Müller

یہ تصویر جھنجھوڑتی ہے

ہم اسے اس لیے دکھا رہے ہیں کہ یہ ہم سب کے دلوں کو چھُو رہی ہے۔ ہم اس لیے اسے دکھا رہے ہیں کیونکہ یہ مہاجرین کے المیے کو ایک علامت دے رہی ہے: ایک معصوم بچہ، جس کے لیے اُس کے والدین ایک ایسے خطرناک سفر پر روانہ ہوئے، جس میں جان کا بھی خطرہ تھا، صرف اس لیے کہ اُسے انسانی اعتبار سے ایک اچھا مستقبل دے سکیں لیکن اُن کا سفر سمندر میں موت کی صورت میں ختم ہو گیا۔

ہم اسے دکھا رہے ہیں کیونکہ اس نے ہمیں بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور ہم بھی اسے دیکھ کر اپنی اداراتی کانفرنس میں سوچ میں پڑ گئے، گُنگ ہوکر رہ گئے۔ مصائب اور موت کا سوچ کر ہِل کر رہ گئے۔ ہم اسے اس لیے دکھا رہے ہیں کہ ہم اس ابتلا کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی صحافتی مصروفیات کے چُنگل میں پھنسے ہونے کے باوجود ذرا رُک کر کچھ سوچنے اور اپنا سر جھکا دینے پر مجبور ہو گئے، اس تصویر کے سامنے!‘‘