1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک مرتبہ پھر میانمار میں مسلم مخالف فسادات کا خدشہ

عابد حسین25 جون 2016

ماہرین کے مطابق وسطی میانمار میں مقامی مسلمان آبادی کے خلاف پرتشدد واقعات دوبارہ رونما ہو سکتے ہیں۔ سکیورٹی حکام کے مطابق اس علاقے میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک مسجد کو تباہ بھی کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JDWu
میانمار میں جلائی گئی مسجد کے قریب کھڑا پولیس اہلکارتصویر: Reuters

میانمار کے وسطی علاقے کے ایک گاؤں میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مقامی مسلمان آبادی کے خلاف اشتعال میں آ کر ایک مسجد کو تباہ کر دیا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے پولیس کے اضافی دستے متاثرہ گاؤں میں تعینات کر دیے ہیں۔ گاؤں کے اندر اور باہر شدید کشیدگی اور تناؤ کی فضا قائم ہے۔

گاؤں میں کشیدگی رواں ہفتے کے دوران یہاں دو ہمسایوں میں ہونے والی گفت گو میں تلخی سے پیدا ہوئی۔ ایک مسلمان خاندان اپنا مذہبی اسکول قائم کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور اُس کے ہمسائے نے اِس پر اعتراض کیا تھا۔ اِس بات پر دو سو بدھ مت کے پیروکاروں نے گاؤں کے مسلم علاقے میں شور شرابے کے علاوہ توڑ پھوڑ بھی کی۔ یہ گاؤں میانمار کے باگو صوبے میں واقع ہے۔

مقامی پولیس کے سربراہ اون لوِن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ہفتے کے روز بھی گاؤں میں کشیدگی قائم رہی اور صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے کم از کم ایک سو پولیس اہل کار گروپوں کی شکل میں گشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لوِن کے مطابق جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب پچاس اہل کار نگرانی کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے۔ اِس فساد کے دوران مسجد تباہ کرنے کے شبے میں ابھی تک کسی ایک فرد کو بھی ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

Buddhistische Mönche Birma Myanmar
میانمار کے بودھ راہبوں کا ایک مذہبی جلوستصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images

دوسری جانب گاؤں کی مسجد کے سیکرٹری ون شوے نے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ تمام مسلمان خاندانوں کو اپنی زندگیاں بچانے کی فکر لاحق ہے اور سبھی ایسی سوچ رکھتے ہیں کہ کسی محفوظ مقام کی جانب منتقل ہونا ضروری ہے۔ مسلم آبادی کی ترجمانی کرنے والے ون شوے کے مطابق سبھی لوگ خوف و ہراس میں رہ رہے ہیں اور بہ ظاہر کوئی محفوظ دکھائی نہیں دے رہا۔

میانمار میں بدھ قوم پرستی کی لہر سن 2012 میں پیدا ہوئی تھی اور اب نوبل انعام یافتہ خاتون سیاست دان آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی حکومت کو اِس بدھ قوم پرستانہ زجحان کو قابو میں رکھنے کے امتحان کا سامنا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی حکومت کے سن 2011 میں ختم ہونے کے بعد قائم ہونے والی سیاسی حکومت نے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مذہبی منافرت اور قوم پرستی کو ہوا دینا شروع کی تھی۔

میانمار میں بدترین مسلم کش فسادات مغربی ریاست راکھین میں شروع ہوئے تھے جب بے گھر اور بغیر شہریت کی روہنگیا اقلیت کے لیے بدھ مت کے قوم پرست پیروکاروں اور راہبوں کی جانب سے انتہائی پرتشدد حالات پیدا کر دیے گئے تھے۔ یہ تمام مقامی گروہ روہنگیا کو ایک علیحدہ نسلی گروپ تسلیم کرنے کے مخالف ہیں اور انہیں بنگالی قرار دیتے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے میانمار کو متنبہ کیا ہے کہ روہنگیا آبادی کے خلاف مزید حملے انسانیت کے خلاف جرائم تصور کیے جائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں