1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک مہاجر نے شام اور جرمنی میں کیا فرق دیکھا؟

عاطف بلوچ، روئٹرز
26 ستمبر 2016

کوئی گاڑی نہیں،کوئی پولیس اہلکار دیکھنے والا نہیں مگر شامی مہاجر محمد الحج اطمینان سے سڑک عبور کرنے کے لیے اپنی سبز بتی کا انتظار کر رہا ہے، شام میں تاہم وہ قانون شکنی کر کے سڑک عبور کرتے دیگر نہ لگاتا۔

https://p.dw.com/p/2QaIh
Internationaler Frauentag 2012 Weltfrauentag
تصویر: Reuters

جرمنی میں سڑکوں کے جنکشن پر کوئی شخص سڑک صرف اس وقت عبور کر سکتا ہے، جب وہاں زیبرا کراسنگ ہو یا وہاں پیدل چلنے والوں کے لیے نصب سگنل سبز بتی کے ذریعے آپ کو بتا دے کہ اب سڑک عبور کر لیجیے۔

محمد الحج کا کہنا ہے، ’’میں ایسی کوئی عادت نہیں بنانا چاہتا کہ میں سبز بتی کا انتظار نہ کروں اور سڑک عبور کر لوں۔‘‘

27 سالہ الحج کے مطابق، ’’میں نے یہاں آنے کے بعد پہلے روز ہی محسوس کر لیا تھا کہ جرمنی قانون اور ضوابط کا ملک ہے۔‘‘

یہ ایک ایسی دنیا ہے، جہاں اب محمد رہتا ہے اور جہاں قانون ہی افراد کی زندگیوں کے ضوابط طے کرتے ہیں۔ محمد کا کہنا ہے کہ جرمنی میں وہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ دیگر ہزارہا مہاجرین کے ہمراہ جرمنی پہنچنے والا محمد جانتا ہے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہے، جہاں وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔

مگر محمد ساتھ ہی ایک ایسی دنیا کا بھی باشندہ ہے، جسے وہ ’شامی جہنم‘ کہتا ہے۔ وہ ہر روز صبح اٹھ کر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنے وطن سے متعلق خبریں دیکھتا ہے۔ وہ وہاں ہونے والی خون ریزی روک نہیں سکتا اور ہر روز ایک بے بسی کی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ وہ ہر روز اپنے شہر حلب میں ہونے والی تباہ کاری کا مشاہدہ کرتا ہے، اپنا دل میلا کرتا ہے، تاہم وہ ان خبروں سے نگاہ پھیرنے پر بھی آمادہ نہیں۔

Syrien Bürgerkrieg Aleppo
شام گزشتہ ساڑھے پانچ برس سے خانہ جنگی کا شکار ہےتصویر: GettyImages/AFP/A. Alhalbi

’’شام ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ ڈراؤنا خواب صبح سے شام تک میرے ساتھ رہتا ہے۔ میں یہاں فراغت اور سکون سے بیٹھا ہوتا ہوں کہ اچانک مجھے معلوم چلتا ہے کہ کوئی شخص جسے میں جانتا تھا، ہلاک ہو چکا ہے۔‘‘

ایسوسی ایٹڈ پریس نے گزشتہ موسم گرما میں محمد کے ترکی سے جرمنی تک کے سفر کا ریکارڈ رکھا تھا کہ وہ کس طرح مختلف اور خطرناک راستوں سے ہوتا ہوا جرمنی پہنچا اور اب جرمن شہر زاربروکن میں مقیم ہے۔

وہ اب یہاں ایک دو کمروں کا فلیٹ دیگر تین شامی مہاجرین کے ساتھ بانٹ رہا ہے۔ اس گھر میں کوئی بستر نہیں ہیں۔ محمد کے کمرے میں ایک تختہ سیاہ لٹک رہا ہے جب کہ اس کے ساتھی نے ایک دیوار پر شام کا نقشہ اور شامی اپوزیشن کا پرچم چسپاں کر رکھا ہے۔

محمد کو شام میں حکومت کی طرف سے 370 یورو اور مکان کا کرایہ ملتا ہے، اس کے علاوہ اس کے یوٹیلیٹی بلز اور جرمن زبان سیکھنے کے پروگرام کے پیسے بھی حکومت دیتی ہے۔ محمد جرمنی کا مشکور ہے، ’’جرمنی نے میرے لیے اپنے دروازے کھولے اور مجھے جو کچھ درکار تھا، دے دیا۔ میں جرمنی کا شکر گزار ہوں۔‘‘

تاہم یہ پیسے کافی نہیں ہیں۔ وہ ان پیسوں سے گھر سے باہر کھانا نہیں کھا سکتا، کسی کیفے میں نہیں بیٹھ سکتا یا کوئی فلم دیکھنے کے لیے کسی سینما گھر کا رخ نہیں کر سکتا۔ وہ جرمنی کے دیگر شہروں میں مقیم اپنے شامی دوستوں کے پاس بھی نہیں جا سکتا، کیوں کہ جرمنی میں پبلک ٹرانسپورٹ اس کے لیے خاصی مہنگی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ قانون اور ضوابط کی موجودگی کی وجہ سے اسے اپنی سلامتی کا ایک نہایت عمدہ احساس ہوتا ہے، جس سے وہ شام میں محروم تھا۔