1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک پاکستانی ممبئی اور پیرس حملوں میں ملوث ہو سکتا ہے

عاطف بلوچ12 اپریل 2016

آسڑیا کے استغاثہ نے کہا ہے کہ سالزبرگ میں مقید ایک پاکستانی شہری کے پیرس حملوں اور سن 2008 کے ممبئی حملوں میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے امکانات پر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1ITaf
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Fohringer

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آسٹریا کے استغاثہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے امکانات ہیں کہ گرفتار شدہ پاکستانی شہری ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ ہو سکتا ہے۔ حکام نے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں ہے۔ یہ پاکستانی گزشتہ برس دسمبر سے آسٹریا کے مغربی شہر سالز برگ میں قید ہے۔

آسٹریا کے حکام نے کہا ہے کہ مختلف امور پر تفتیشی عمل جاری ہے اور اس تناظر میں پاکستانی حکام سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ البتہ ابھی تک اس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں اسلام آباد حکومت کی طرف سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ آسٹریا کے استغاثہ نے حکومت پاکستان کو خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے درخواست بھی کر رکھی ہے۔

Deutschland Grenzkontrollen an der Grenze zu Österreich
تصویر: Getty Images/J. Simon

سنڈے ٹائمز اور پیرس میں ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ایسے شکوک موجود ہیں کہ یہ پاکستانی جنگجو تنظیموں لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی کے لیے بم سازی کا کام کرتا تھا۔ بھارتی حکام ممبئی حملوں کے لیے لشکر طیبہ پر الزام عائد کرتے ہیں۔

لشکر طیبہ کے مبینہ طور پر دہشت گردہ گروہ القاعدہ سے روابط بھی بتائے جاتے ہیں۔ اسی طرح جنگجو گروہ لشکر جھنگوی بھی حالیہ برسوں میں کئی بڑے حملوں میں ملوث بتایا جاتا ہے۔

اس چونتیس سالہ پاکستان شہری کو الجزائر کے ایک باشندے کے ساتھ گزشتہ برس دسمبر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فرانسیسی تحقیقات کاروں کا خیال ہے کہ انتہا پسند گروہ داعش نے ان دونوں افراد کو حملوں کے لیے یورپ روانہ کیا تھا۔

داعش نے گزشتہ برس نومبر میں پیرس میں ہوئے حملوں کے علاوہ مارچ میں برسلز حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر رکھی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ انہیں اس بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس شخص کے بارے میں ہمارے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ وہ کون ہے، اس کی شناخت کیا ہے اور اس کا کس گروہ سے تعلق ہے، یہ ہم نہیں جانتے ہیں۔‘‘