1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیو فیول بنانے کی روش،غذائی بحران کا باعث

شادی خان7 اکتوبر 2008

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے خوراک نے ترقی یافتہ ممالک میں بائیو فیول سے ایندھن بنانے کی بڑھتی ہوئی روش کو عالمی سطح پر غذائی اجناس کی گرانی اور بحران میں اضافہ کا باعث قراردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/FVkW
تصویر: AP

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل جیکس ڈیوپ نے ادارےکی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوے بتایا کہ بائیو فیول سے عام ایندھن کے مقابلے میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں تو بہت ہی کم مدد ملتی ہے لیکن اس سے غ‍ذائی قلت کے سنگین ہونے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

ایف اے او کے سربراہ نے اٹلی کے دارلحکومت روم میں اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ موجودہ عالمی معیشی بحران میں، خصوصا ترقی پذیر ممالک کو درپیش غذائی بحران کو نظر کیا جارہا ہے جو تشویشناک امر ہے۔

عالمی ادارے کی سالانہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ بائیو فیول کے استعمال میں بے تحاشہ اضافے کے فائدے صرف چند ترقی یافتہ ممالک تک محدود ہیں۔ان کے بقول جہاں سے زیادہ تر یہ اجناس پیدا ہوکر آتی ہے، وہ ممالک ابھی تک معیشی فوائد سے محروم ہیں۔

ایک فرانسیسی تنظیم، آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کے اندازے کے مطابق امریکہ، یورپی یونین اور کینیڈا نے سال دو ہزار چھ کے دوران بائیو فیول بنانے میں پندرہ بلین ڈالر لگائے جس میں مزید اضافےکا امکان ہے۔

غذائی اجناس مثلا چینی، جوار، پام آئل وغیرہ سے ایندھن بنانے کے رجحان میں گزشتہ سات سالوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جس کے بعد محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں آمدورفت کیلئے استعمال ہونے والے ایندھن کا دو فیصد حصہ اب یہی بائیو فیول بن گیا ہے۔

لیکن دوسری جانب اگر بائیو فیول کے استعمال سے ماحول میں بہتری کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو ماہرین کے بقول وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس موضوع پر وسیع مطالعہ رکھنے والے کیتھ ویییب نے اپنی ایک رپورٹ میں امید ظاہر کی ہے کہ ایسے ممالک جو بائیو فیول کے بے دریغ استعمال کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ اپنی یہ پالیسی بدل لیں گے ورنہ زراعت پر اور بالخصوص غذائی اجناس کی کاشت پر بہت برے اثرات پڑیں گے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے خوراک کی رپورٹ کے مطابق ان غذائی اجناس کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہیں جن سے بائیو فیول بنتا ہے ۔ نتیجتا ایسے خاندان جو چھوٹے پیمانے پر غذائی مقاصد کیلئے ان اجناس کی کاشت کرتے تھے وہ اب مسائل میں گھر گئے ہیں۔

ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل جیکس ڈیوپ کے بقول سب سے بڑا امتحان اب یہ ہے کہ ان خطرات کے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے اورممکنہ فائدے کو چند ممالک تک محدود رکھنے کے بجائے دنیا بھر میں مساوی طورپر تقسیم کیا جائے۔