1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باغیوں سے مذاکرات، سوچی کی امن معاہدے کی کوشش

عاطف بلوچ17 جولائی 2016

میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی نے باغیوں کے اہم رہنماؤں کے ساتھ اتوار کے دن امن مذاکرات کا انعقاد کیا ہے۔ یہ خاتون سیاستدان اقلیتی نسل کے باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JQNz
Myanmar Kachin Independence Army Soldaten Rebellen
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ حکمران پارٹی کی رہنما آنگ سان سوچی نے باغیوں کے سنیئر رہنماؤں کے ساتھ اتوار کے دن تاریخی نوعیت کے مذاکرات کیے ہیں۔

سوچی کی سیاسی جماعت نے رواں برس منعقدہ عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری بغاوت کا خاتمہ ان کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی اولین ترجیحات میں ہے۔

میانمار میں فعال متعدد اہم باغی دھڑوں نے ابھی تک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں تاہم سوچی کی کوشش ہے کہ مذاکرات کے اس تازہ سلسلے کے دوران یہ پیش رفت ممکن بنا لی جائے۔

حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر خارجہ سوچی اور ان کے اہم قریبی ساتھی باغی اتحاد ’یونائیٹڈ نیشنلسٹ فیڈرل کونسل‘ کے پانچ رہنما ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔

اس باغی اتحاد میں شامل کچھ دھڑے ’جنگ بندی کے قومی معاہدے‘ پر دستخط کر چکے ہیں جبکہ کچھ اسے حتمی شکل دینے پر ابھی تک انکار کر رہے ہیں۔

صدارتی دفتر کے نائب ترجمان Zaw Htay نے صحافیوں کو بتایا کہ ان باغی رہنماؤں کے ساتھ سوچی اور دیگر حکومتی اہلکاروں کی یہ ملاقات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئی، ’’یہ ویسی ہی ملاقات ہو تھی، جیسا کے ایک گھر کے افراد کرتے ہیں۔‘‘

اس مذاکراتی عمل میں باغی گروہ ’کاچین انڈیپنڈنٹ آرگنائزئشن‘ کے سربراہ جنرل نبان لا بھی شامل ہوئے۔ وہ میانمار میں باغی دھڑوں کے سب سے اہم رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے ابھی تک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ میانمار حکومت کی کوشش ہے کہ اس تازہ مذاکراتی عمل کے دوران ملک میں قیام امن کی خاطر ان کی حمایت حاصل کر لی جائے۔

امن مذاکراتی عمل کے لیے حکومتی مشیر ہلہ ماؤنگ شُو نے اس ملاقات سے قبل اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ملاقات دراصل اعتماد سازی کے لیے ہے۔ اس عمل کے دوران اطراف کئی سوالات اٹھا سکتے ہیں۔‘‘

سن 1948 میں آزادی کے بعد سے میانمار نسلی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ ان میں سے متعدد مسلح نسلی گروہ زیادہ خود مختاری کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ان گروہوں کا کہنا ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس دوران میانمار میں کئی عشروں تک قائم رہنے والی فوجی حکومت کو قصوروار قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ماضی میں ملکی سکیورٹی فورسز ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کرچکی ہیں۔

آنگ سان سوچی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عہد کیا تھا کہ وہ ملکی تاریخ کے اس درد ناک باب کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کریں گی۔

اسی مقصد کے لیے انہوں نے رواں برس موسم گرما میں ایک اہم کانفرنس کے انعقاد کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ تاہم دوسری طرف میانمار میں جمہوری حکومت کے قیام کے باوجود ملکی فوج کے اختیارات میں بھی کوئی خاص کمی نہیں ہوئی ہے۔

Aung San Suu Kyi Myanmar Staatsberaterin Regierungschefin
آنگ سان سوچی اقلیتی نسل کے باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے لیے پُرعزم ہیںتصویر: Getty Images/AFP/N. Sangnak

ملکی فوج اور باغی گروہوں کے مابین اب بھی کئی علاقوں میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بالخصوص شمالی کاچین اور مشرقی شان ریاستوں میں فوج ان باغیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

میانمار میں اس تشدد کے باعث دو لاکھ چالیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ میانمار کی فوج اور باغی گروہوں پر ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنی کارروائیوں میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب بھی ہوتے رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں