1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی وُڈ فلم انڈسٹری میں نئی صنفی لہر

کشور مصطفیٰ20 اگست 2015

بالی وُڈ فلمی صنعت میں قریب ایک دہائی تک مردوں کے تسلط کے بعد اب خواتین کی اجارہ داری نظر آ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہِٹ ہونے والی تمام فلموں میں مرکزی کردار خواتین ہی نے ادا کیا۔

https://p.dw.com/p/1GIKt
تصویر: AFP/Getty Images

بالی وُڈ کی حالیہ فلموں کا ٹرینڈ اس امر کی نشاندہی ہے کہ اس صنعت میں اب نئی صنفی لہر دوڑ گئی ہے اور مردوں کی اجارہ داری والی اس انڈسٹری پر اب خواتین کا تسلط ہے۔

بھارت میں فلمیں دیکھنے والے اب تک ایک خاص رجحان کے عادی تھے۔ بالی وُڈ فلمیں رومانس، گلیمر، مختصر لباس میں ملبوس خواتین، محبت، مفاد پرستی، گھریلو ذمہ داریوں اور عشق میں ناکامی اور دشوار گزار تعلقات جیسے مسائل کی چکی میں پستی ہوئی خواتین ہی کو اسکرین پر لاکر ناظرین کی توجہ حاصل کرتی رہیں تاہم اب یہ فلمی مناظر یکسر بدل گئے ہیں۔

مضبوط خواتین

بھارتی سنیما میں نئے رجحان کا براہ راست تعلق معاشرے کی اُس قدامت پسند سوچ سے ہے جس کی نفی کے لیے معاشرتی سطح پر بھی اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں اور فلمی دنیا میں بھی اس کے واضح اثرات نمایاں ہیں۔ ماڈرن یا جدید بھارت کی منظر کشی کے لیے اب فلموں میں عورتوں کو گریا زاری کرنے والی اور گوناگوں مشکلات سے دو چار صنف دکھانے کی بجائے انہیں مضبوط، پُر اعتماد، جری اور جسمانی طور پر بھی لڑنے کے قابل دکھانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ بھارتی اداکارہ ہما قُریشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا،’’ گُڈ گائی اور بیڈ گائی کا فارمولا اب مزید نہیں چل سکتا او ہم اب حقیقی کہانیوں کو تسخیر کر رہے ہیں‘‘۔ ہما کا مزید کہنا تھا،’’ ہم نئے تجربات کر رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ فلم کی اسکرپٹ نویسی بہتر ہو رہی ہے، اداکار نئے نئے مواقع کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں‘‘۔

Filmplakat Mary Kom
فلم ’میری کام‘

ہما قریشی نے فلم ’’ڈیڑھ عشقیا‘‘ میں مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ کردار کیا ہے اور یہ فلم دو ایسی مضبوط خواتین کی کہانی ہے جو قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اداکاری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

گزشتہ برس بالی وُڈ کی کم از کم ایک درجن سے زائد ایسی فلمیں ریلیز ہوئیں جو عورتوں کے تسلط سے عبارت تھیں اور ماضی کی طرح ان میں مردوں کا مرکزی کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ خواتین کے مرکزی کردار کے موضوع پر بننے والی ان فلموں کی شہرت کا اندازہ بھاات بھر میں جگہ جگہ لگے اُن بِل بورڈز سے ہوتا ہے جن پر خواتین اداکارائیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔

مشہور ترین فلمیں

گزشتہ برس باکس آفس میں تہلکا مچا دینے والی چند فلموں میں ’کوئین‘ ، ’ میری کوُم‘، ’مردانی‘ اور ہائی وے‘ شامل تھیں جبکہ ’پیکو‘ ’ NH10 ‘ اور ’تنو ویڈس منو ریٹرنز‘ جیسی فلموں نے رواں برس اتنی ہی مقبولیت حاصل کی۔

Presskonferez, indisches Film Highway
بھارتی فلم ہائی وے‘ 2014 ء میں جرمن فلم فسٹیول برلینالے میں آئی تھیتصویر: DW/Samrah Fatima

دو مزید فلمیں پائپ لائن میں ہیں۔ "Jazbaa"، ایشوریا رائے بچن کی اور "Bajirao" مستانی"، جس کے مرکزی کردار ہیں دپیکا پڈکون اور پریانکا چوپڑا۔

بھارتی فلمساز سوجوئی گُھوش کا ماننا ہے کہ اب بھارتی فلموں کے شیدائی فلموں کی کہانی کی گہرائی پر زیادہ اور فلمی ستاروں کے میک اپ اور لباس پر کم توجہ دینے لگے ہیں۔ اس طرح اداکاراؤں کے لیے بھی کرداروں کے تنوع میں اضافہ ہوا ہے۔