1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بالی کے کوہ آگونگ میں آتش فشانی کا خطرہ بڑھ گیا

عاطف بلوچ روئٹرز
27 نومبر 2017

انڈونیشیا کے معروف سیاحتی مقام بالی میں واقع کوہ آگونگ میں آتش فشانی کے باعث خطرے کی سطح مزید بڑھا دی گئی ہے۔ ادھر سینکڑوں پروازیں منسوخ ہونے کے باعث ہزاروں مسافر بالی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر محصور ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2oJEQ
Indonesien Bali Ausbruch des Vulkans Mount Agung
تصویر: Reuters/Antara/N. Budhiana

خبر رساں ادارے روئٹرز نے انڈونیشیائی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بالی کے کوہ آگونگ میں آتش فشانی کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی لیے خطرے کی سطح مزید بڑھا کر چار کر دی گئی ہے۔ اس پہاڑ سے کثیف دھوئیں اور راکھ نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسی باعث ویک اینڈ سے بالی کا ہوائی اڈہ بھی بند ہے۔

بالی کا آتش فشاں پھٹنے والا ہے، ماہرین

آتش فشاؤں کا پھٹنا بڑے دریاؤں کے لیے نقصان دہ

برف کے دور میں زندگی کے محافظ، آتش فشاں

بالی کا آتش فشاں پھر ابل پڑا

حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے 445 پروازیں متاثر ہو چکی ہیں جبکہ 59 ہزار مسافر بالی میں محصور ہو چکے ہیں۔ مقامی حکام نے بتایا ہے کہ راکھ اور دھوئیں کے باعث آئندہ دنوں میں مزید پروازیں بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران دوسری مرتبہ کوہ آگونگ میں سرگرمی دیکھی گئی ہے۔

حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس آتش فشاں سے بڑے پیمانے پر لاوا ابل سکتا ہے، اس لیے شہریوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پیر کے دن ملک کی ہنگامی آفات سے نمٹنے کی ایجنسی BNPB نے خبردار کیا ہے کہ اس پہاڑ میں دھماکوں کی وجہ سے قریبی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کوہ آگونگ کے قریبی علاقوں سے ہزاروں شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔

مقامی میڈیا نے BNPB کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اتوار اور پیر کے درمیانی رات کے دوران مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوہ آگونگ میں بڑے پیمانے پر دھماکے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ایجنسی سے وابستہ اہلکار سوتپو نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کم ازکم چالیس ہزار افراد کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

کوہ آگونگ آخری مرتبہ سن 1963 میں پھٹا تھا، جس کے باعث تقریبا ایک ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس تباہی کی وجہ سے متعدد گاؤں بھی نیست ونابود ہو گئے تھے۔ حکام کے مطابق موجودہ خطرات اتنے بڑے نہیں ہیں لیکن متعلقہ اداروں کو کسی بھی ہنگامی حالت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔