1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہٴ روم میں مہاجرین کا چودہ گھنٹے طویل سفر کیسا ہوتا ہے؟

شمشیر حیدر30 اپریل 2016

یورپی بحریہ کا صوفیہ نامی جنگی بحری بیڑا اس سال اب تک چھ سو تارکین وطن کو بحیرہٴ روم میں ڈوبنے سے بچا چکا ہے، اس مشن میں جرمن نیوی بھی شریک ہے۔ بحیرہٴ روم کے چودہ گھنٹے طویل سفر کے دوران مہاجرین پر کیا گزرتی ہے؟

https://p.dw.com/p/1IflM
Mittelmeer Flüchtlingsrettung Einsatzgruppenversorger Frankfurt am Main
تصویر: DW/D. Pelz

جرمن بحریہ کا ’فرینکفرٹ‘ نامی جہاز بحیرہٴ روم میں جاری اس یورپی مشن کا حصہ ہے جو تارکین وطن کو بچانے کے علاوہ انسانی اسمگلروں کے خلاف بھی سرگرم ہے۔

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

’فرینکفرٹ‘ پر کیے گئے اعلان میں بتایا گیا کہ بحیرہٴ روم کے کھلے پانیوں میں تارکین وطن کی پانچ کشتیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اعلان کے فوراﹰ بعد امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے جہاز روانہ ہو گیا۔ اس امدادی مشن کے دوران جرمن بیڑے کے علاوہ ہسپانوی اور اطالوی بحری بیڑے بھی ہمراہ تھے۔

ہر کوئی مدد کا طلبگار

امدادی کارکنوں نے سب سے پہلے ربڑ کی ایک سفید کشتی دیکھی جو بحیرہٴ روم کے کھلے پانیوں میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ کشتی میں سوار تارکین وطن نے جب ’فرینکفرٹ‘ کے امدادی اہلکاروں کو دیکھا تو سبھی مدد کے لیے پکارنے لگے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ اسے سب سے پہلے بچایا جائے، ان سب کی آنکھوں میں خوف نمایاں تھا۔

ان تارکین وطن کو بچانے کے لیے بحری جہاز سے چھوٹی کشتیوں کو روانہ کر دیا گیا۔ تیز ہوا اور بپھری لہروں میں پھنسے ان تارکین وطن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔ فرینکفرٹ کے کمانڈر کا کہنا تھا، ’’اس سے پہلے کہ سمندر کی لہریں پھر بپھر جائیں، ہمارے پاس تارکین وطن کو بچانے کے لیے بہت مختصر وقت ہے۔‘‘

Mittelmeer Flüchtlingsrettung Einsatzgruppenversorger Frankfurt am Main
منہ پر ماسک چڑھائے اور سفید حفاظتی گاؤن پہنے بحری بیڑے پر تعینات ڈاکٹرز ان سب کا ابتدائی طبی معائنہ کرتے ہیںتصویر: DW/D. Pelz

بے چینی اور تھکن

امدادی کارکیوں نے پریشان حال تارکین وطن کو خستہ حال کشتی سے نکال کر آخر کار جرمن بحری بیڑے ’فرینکفرٹ‘ تک پہنچا دیا۔ طویل سمندری سفر کے دوران موت کا سامنا کرنے کے بعد اب سبھی تارکین وطن جہاز کے تختے پر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔

منہ پر ماسک چڑھائے اور سفید حفاظتی گاؤن پہنے بحری بیڑے پر تعینات ڈاکٹرز ان سب کا ابتدائی طبی معائنہ کریں گے۔ ان سینکڑوں صدمہ زدہ اور خوفزدہ تارکین وطن کو پرسکون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طبی عملہ چہروں پر مسکراہٹ سجائے ان کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں لیکن پناہ گزینوں کے ذہنوں پر حاوی خوف اور خدشات ان کے چہروں پر نمایاں ہے۔

’ہمارے ساتھ جھوٹ بولا گیا‘

جرمن امدادی کارکنوں کو تارکین وطن کے ساتھ طویل گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ بحری بیڑے کا کام ان تارکین وطن کو کھلے پانیوں سے نکال کر اٹلی کے جزیرے سسلی تک پہنچانا ہے۔ جرمن اہلکاروں کو ان پناہ گزینوں سے انسانی اسمگلروں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ تک گفتگو کرنے کی اجازت ہے۔

بحیرہٴ روم میں چودہ گھنٹے طویل اور خطرناک سفر کرنے والوں میں عبدالقادر بھی شامل ہے۔ اس نے جرمن اہلکاروں کو بتایا، ’’میں نے اس خطرناک راستے کا انتخاب بلاوجہ نہیں کیا۔ میں یورپ جا کر کام کرنا چاہتا ہوں اور ایک باعزت زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘

عبدالقادر نے اس خطرناک سفر کے لیے بھاری رقم ادا کی تھی لیکن اس کے مطابق اسمگلروں نے تارکین وطن کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ عبدالقادر کے مطابق، ’’اسمگلروں نے ہمیں بین الاقوامی پانیوں میں لا کر چھوڑ دیا اور کہا کہ کشتی میں اتنا ایندھن موجود ہے کہ وہ ہمیں اٹلی کے ساحلوں تک پہنچا دے گی۔‘‘

آسٹریا نے پناہ کے سخت ترین قوانین متعارف کرادیے

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید