1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم میں مزید ساڑھے تین سو کے قریب مہاجرین لاپتہ

عابد حسین
17 نومبر 2016

مہاجرین سے متعلق انٹرنیشنل ادارے کے مطابق گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں بحیرہ روم میں 340 کے قریب مہاجرین ہلاک یا لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ان افراد کی ہلاکت یا گمشدگی کی وجہ چار بحری کشتیوں کی غرقابی بتائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2SqQn
Griechenland Kos  Bootsflüchtlinge Symbolbild Schlepper
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Kolesidis

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق گزشتہ اڑتالیس سے زائد گھنٹوں کے دوران بحیرہ روم کی تند موجوں کی لپیٹ میں آ کر کم از کم چار کشتیاں غرق آب ہوئی ہیں۔ ادارے کے مطابق ان غرقابی کے حادثوں کی وجہ سے تقریباً 340 پناہ کے متلاشی افراد لاپتہ یا ڈوب گئے ہیں۔ اُن کی تلاش جاری ہے لیکن غالب امکان ہے کہ وہ سمندر برد ہو چکے ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو کے مطابق اس حادثے کے بعد فضائی اور سمندری تلاش کا عمل جاری ہے لیکن دور دور تک کوئی نعش یا تیرتا ہوا زندہ انسان نہیں مل سکا۔ جیاکومو کے مطابق بحیرہ روم کی تند موجوں نے افریقہ کی سمت سے سفر کرنے والے مبینہ مہاجرین کی شکستہ کشتیوں کے لیے انتہائی مشکل حالات پیدا کر رکھے ہیں۔

Italien und Malta Flüchtlinge wurden im Mittelmeer gerettet
بحیرہ روم سے بچائے گئے مہاجرین ایک ریسکیو بحری جہاز کے عرشے پر تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Malavolta

اسی طرح طبی امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ایام کے دوران افریقی مہاجرین سے لدی ایک ربڑ کی کشتی بھی بحیرہ روم کی موجوں کی نذر ہو گئی ہے۔ اس ربڑ کی کشتی پر 130 سے زائد مہاجر سوار تھے۔ اس کشتی کے الٹنے کے واقعے میں ستائیس افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی سات نعشوں کو بھی نکال لیا گیا ہے۔  

مہاجرت پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم IOM کے اہلکار فلاویو ڈی جیاکوموکے مطابق  ان ہلاکتوں کے بعد رواں برس کے دوران بحیرہ روم میں لاپتہ یا ڈوب کر مرنے والوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ ایک ریکارڈ تعداد ہے۔

اس سے قبل سن 2015 میں ڈوبنے یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد تین ہزار 777 تھی۔ اس طرح رواں برس بحیرہ روم میں کشتیوں کی غرقابی کے حادثات میں لاپتہ یا ڈوبنے والوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔