1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدقسمتی سے بلوچ عوام کی مرضی جانی ہی نہیں گئی، آئی اے رحمان

عاطف توقیر19 اگست 2016

پاکستان میں انسانی حقوق کے سرکردہ ترین کارکنوں میں شمار ہونے والے معروف دانشور آئی اے رحمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں بلوچستان کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ بلوچ عوام سے کبھی ان کی مرضی نہیں جانی گئی۔

https://p.dw.com/p/1JlWE
Pakistan Belutschistan Armee Offensive
تصویر: Abdul Ghani Kakar

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمان نے کہا کہ یہ تک نہیں بتایا جا سکتا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کتنے برسوں سے خراب ہے، کیوں کہ پہلے دن ہی سے وہاں کے لوگوں کی رائے جانی ہی نہیں گئی۔ ’’جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ آیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہو سکتی ہے، تو میرے خیال میں ایسا جلد ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے، کیوں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بلوچستان کے بارے میں تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

اس بارے میں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی کی تقریب کی موقع پر اپنی تقریر میں بلوچستان کا ذکر بھی کیا تھا، آئی اے رحمان کا کہنا تھا، ’’دیکھیے سارے مسائل کی وجہ تصادم ہے، جو بھارت اور پاکستان کے عوام کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو تمام معاملات کا حل گفت گو کے ذریعے نکالنا چاہیے۔‘‘

Ibn Abdur Rehman mit Teesta Setalvad Preisverleihung Menschenrechtspreis
آئی اے رحمان خطے میں امن کی کوششوں کے لیے آواز اُٹھاتے آئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/P.Roggenthin

ان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن جو نریندر مودی نے بلوچستان اور پاکستان کے بارے میں کہا، وہ اس لیے سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ان دنوں جو کشیدگی اور مظاہرے جاری ہیں، اور جس شدت سے اسے کچلنا پڑ رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی شدید ہے۔ وہ تو خیر مسئلہ اپنی جگہ پر رہے گا۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یہ کسی کے حق میں اچھی نہیں ہے اور انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔‘‘

آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ چوں کہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہیں ہے، اس لیے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا، ’’مضبوط بھی پڑ جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کشمیر کا مسئلہ کتنے برسوں سے بین الاقوامی سطح پر ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ کہاں نکل پایا ہے؟‘‘

تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی وجہ سے خاصا مجروح ہوا ہے اور اب انسانی حقوق کے حوالے سے پامالیوں کے الزامات کے بعد اس تشخص کو اور زیادہ نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کے معاملے مزید بگڑ جانے اور صورت حال مزید ابتر ہو جانے کے خدشات ہیں کیوں کہ ’ریاستی سطح پر اس بابت کوئی قدم اٹھتا دکھائی نہیں دیتا‘۔