1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برتھ کنٹرول‘: افغانستان کی نئی جنگ

26 اپریل 2016

’چار بچے کافی ہوتے ہیں‘، مانع حمل ادویات کے پیکٹ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا تھا برقعے میں ملبوس ایک نوجوان افغان خاتون کا جو مانع حمل طریقوں کے بارے میں معلومات کے لیے لگائے گئے ایک کیمپ میں موجود تھی۔

https://p.dw.com/p/1Icfx
تصویر: Getty Images

یہ کیمپ غیر سرکاری تنظیم ماری اسٹوپس انٹرنیشنل (MSI) نے افغانستان کے مذہبی رہنماؤں کے تعاون کے ساتھ مزار شریف کے نسبتاﹰ غریب علاقے میں ایک مدرسے کے سامنے لگایا ہوا تھا۔ ایک منی بس میں قائم اس کیمپ میں عوام کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مفت معلومات فراہم کرنا تھا۔

اس کیمپ میں آنے والی خواتین کو مختلف مانع حمل طریقوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ نوجوان افغان خاتون نے اپنے لیے مانع حمل گولیوں کا انتخاب کیا جس کا پیکٹ اسے 20 افغانی کے عوض فراہم کر دیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس خاتون کا کہنا تھا، ’’میں نے اس حوالے سے اپنے شوہر سے بات کی تھی اور اس نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر ایسا نا ممکن ہے۔‘‘

افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے باعث اس ملک میں مانع حمل سہولیات تک رسائی اور معلومات کی فراہمی کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعض بنیاد پرست مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مانع حمل اقدامات کو حرام بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایم ایس آئی نے اس حوالے سے ایسے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ نہ صرف علمی حوالے سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا ہے بلکہ اپنے اس پروگرام میں مذہبی رہنماؤں کو بھی شامل کیا ہے تاکہ لوگوں کے خدشات کا ازالہ ہو سکے۔ مزار شریف کے ایک مدرسے کے سامنے یہ کیمپ بھی اسی باعث لگایا گیا۔

عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں فی خاتون بچوں کی تعداد 5.1 ہے
عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں فی خاتون بچوں کی تعداد 5.1 ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

MSI کے افغان صوبہ بلخ میں پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمت الدین بشر دوست کہتے ہیں، ’’ہمیں افغانستان میں یقیناﹰ مشکلات کا سامنا ہے۔ مانع حمل طریقوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے معلومات ہی نہیں ہے۔ نا خواندگی بھی ایک وجہ ہے۔ لوگ معلومات کے حصول کے لیے میگزین یا کتابیں پڑھ ہی نہیں سکتے۔‘‘

لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیمیں کچھ شہروں میں خاندانوں کو مانع حمل اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنے میں کامیاب تو ہوئی ہیں مگر بشر دوست کے مطابق زیادہ گنجان آباد علاقوں میں لوگوں تک ایسی معلومات کی فراہمی زیادہ مشکل کام ہے۔

افغانستان پانچ برس سے کم عمر بچوں کی ہلاکت کی بلند ترین شرح رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یونیسف کے مطابق ہر سال ہزارہا بچے ہلاک ہوتے ہیں جبکہ اوسطاﹰ ہر دو گھنٹے بعد ایک افغان خاتون حمل یا پیدائش سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔

عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں فی خاتون بچوں کی تعداد 5.1 ہے۔ فرانس میں یہ شرح دو جبکہ پاکستان میں 3.6 ہے۔