1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برج اسپورٹ میں پاکستان کے لیے اعزاز

6 جون 2011

ورلڈ گرینڈ ماسٹر کا خطاب پانے والے ضیاء محمود کبھی برج کے کھیل میں دنیا بھر میں پاکستان اورایشیا کی پہچان تھے مگر پھر ضیاء کے ترک وطن کرنے کے بعد یہ کھیل بھی پاکستان میں گمنامیوں کے اندھیروں میں چلا گیا۔

https://p.dw.com/p/11V3L
تصویر: Fotolia/ruda1984

اب ضیاء محمود ہی کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے چھ شہ دماغوں نے پاکستانی برج کو نئی زندگی دی ہے۔ رشید الغازی، تحسین گھی والا، طاہر مسعود، جاوید احمد، حسن جواد اورحسن عسکری پر مشتمل پاکستانی برج ٹیم نے گزشتہ ہفتے بھارت کو بھارت میں ہرا کر ناصرف ایشین اور مڈل ایسٹ چیمپیئن بن کر دکھایا بلکہ ورلڈ چیمپیئن شپ کے لئے بھی کوالیفائی کر لیا۔

Kartenspiel
برج میں تاش کے باون پتے استعمال ہوتے ہیںتصویر: DPA

بھارتی شہر چنئی میں ہونے والی سولہویں فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ برج چیمپیئن شپ میں،سری لنکا ، بنگلہ دیش، سعودی عرب اور اردن کی ٹیمیوں نے بھی شرکت کی تھی۔ فائنل میں پاکستان نے بھارت کی فتوحات کی تسلسل کو ختم کر دیا۔

۲۰ برس بعد پاکستان کو یہ ٹائٹل جتوانے والی پاکستانی برج ٹیم کے کپتان طارق رشید خان نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا دو لیگ میچ جیتنے کے بعد مومینٹم بھارتی ٹیم کے ساتھ تھا جسے بارہ پوائنٹس کی پیشگی برتری حاصل تھی مگر سینئرز اور جونیئرز پر مشتمل ہماری ٹیم نے جس طرح کمبائنڈ ہو کرفائنل میں جارحانہ انداز اختیار کیا اس سے بھارتی ٹیم کے قدم اکھڑ گئے اور ہم نے انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ پاکستان نے آخری مرتبہ میں بھارت کے شہر دہلی میں بھارت کو ہرا کر یہ چیمپئن شپ جیتی جبکہ 1991 1999 میں سری لنکا میں فائنل کے دوران ایک پاکستانی کھلاڑی اسرار عمر کی اچانک موت کے بعد پاکستان کو اس ایونٹ کا جوائنٹ ونر قرار دیا گیا۔

اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانکا جائے توپاکستان میں برج فیڈریشن کا قیام 1972 میں عمل میں لایا گیا تھا مگر دو مرتبہ برج کی عالمی چیمپیئن شپ میں رنرز اپ رہنے کے باوجود یہاں کبھی برج کو سرکاری سرپرستی نہیں مل سکی۔

ویک اینڈ پراپنے کام کاج سے فارغ ہو کر بڑے شہروں کے بڑے کلبز میں برج کھلینے والے پاکستانی کھلاڑی عموماً ذاتی اخراجات پر ہی عالمی ایونٹس میں شرکت کرتے ہیں اور کئی مرتبہ توانٹری فیس کا بوجھ بھی کھلاڑیوں کو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ تو کیاچنئی کی جیت کے بعد پاکستانی کھیلوں کے منتظمین کے کان پر برج کے لئے کوئی جوں رینگے گی؟ اس بارے میں باسٹھ سالہ کپتان طارق رشید جو پاکستان برج فیڈریشن کے سیکریٹری بھی ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کا ایک نمائندہ ہماری ٹیم کے استقبال کےلئے ائیر پورٹ پر موجود تھا مگر جب فنڈز کی بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ کہ اسکے لئےآپ کو بڑی سفارش لگوانا پڑے گی۔

طارق رشید کے بقول دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے انٹر نیٹ پر جب سے اوکے برج نامی ویب سائٹ خرید کر دنیا بھر کے کھلاڑیوں کےلئے مفت برج کھیلنے کی سہولت فراہم کی ہے اسکے بعد سےحالیہ برسوں میں پاکستان میں اس کھیل میں دلچسپی بڑھی ہے۔ پاکستانی ٹیم کے ٹائٹل جیتنے کے بعد بھی ملک میں برج کھیلنے کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ برج کا کھیل کمپیوٹر پر تاش کے پتوں سے کھیلا جاتا ہے اور پاکستان میں جہاں جواء کھیلنا ممنوع ہے، تاش اورجوئے کو لازم و ملزوم خیال کیاجاتا ہے۔ برج کے فروغ کی راہ میں حائل اس رکاوٹ کے بارے میں پاکستانی برج کھلاڑی طاہر مسعود کہتے ہیں کہ برج کا جوئے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کھیل میں قسمت کا عمل دخل نہیں۔ آپ اور آپ کا مخالف اپنی باری پر کھیلتے ہیں اور پھر سکور کاؤنٹ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسے برائی سمجھا جاتا ہے مگر چنئی جیسی فتوحات کے بعد لوگوں کو برج کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے تاہم اسکے لئے حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا کیونکہ ہم چند لوگ ایک حد سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

Film - Kartenspieler
برج میں چار کھلاڑی ایک ساتھ کھیل سکتے ہیں

پاکستان برج ٹیم اب روں برس اکتوبر میں ہالینڈ میں ہونے والی ورلڈ برج چیمپیئن شپ میں شرکت کرے گی جسے عام طور پر برمودہ بال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ورلڈ چیمپیئن شپ میں پاکستان کا سامنا امریکہ، جرمنی ، اٹلی، ہالینڈ، چین اور بر طانیہ کے کارڈ ماسٹرز سے ہو گا۔ اس حوالے سے طاہر مسعود کہتے ہیں ناک آؤٹ یعنی کوارٹر فائنل مرحلے تک پہنچنا ہمارا پہلا ہدف ہے تاہم تیاری کے لئے ہمیں اچھے غیر ملکی کوچ کی ضوررت ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے عالمی برج چیمپیئن شپ میں 1980 اور 1986 میں فائنلز کے لیے کوالیفائی کیا تھا مگر دونوں مرتبہ امریکی برج ٹیم کے سامنے اسکی ایک نہ چل سکی۔ اب تامل ناڈو کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سن 2011 کی عالمی چیمپیئن شپ کے دوران پاکستانیوں کے پاس چلنے کے لئے کچھ چالیں ضرور موجود رہیں گی۔

رپورٹ: طارق سعید، لاہور

ادارت: عابد حسین