1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی پارلیمانی انتخابات کی مہم کے آخری لمحات

4 مئی 2010

برطانیہ میں، جہاں ووٹرز 6 مئی کو آئندہ وزیر اعظم منتخب کرنے والے ہیں، انتخابی مہم اپنے آخری مراحل میں ہے۔ ماہرین کے خیال میں حریف سیاسی جماعتوں کے مابین اتنا کانٹے دار مقابہ گزشتہ 20 برسوں میں دیکھنے میں نہیں آیا۔

https://p.dw.com/p/NENv
تصویر: AP

اِن انتخابات کے نتیجے میں برطانیہ کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک غالباً برطانوی ووٹرز کی ایک بڑی تعداد یہ فیصلہ نہیں کر پائی ہے کہ وہ اپنا ووٹ کسے دے۔ اِنہی ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے چوٹی کے رہنماؤں نے اپنی کوششیں تیز تر کر دی ہیں اور وہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب بھی دیر گئے تک سرگرم رہنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔

29 اپریل کو ٹیلی وژن پر براہِ راست نشر ہونے والے آخری مباحثے میں وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اعتراف کیا کہ کام آسان نہیں ہے:’’اِس کام میں کرنے کو بہت کچھ ہے۔ اور میرے لئے سبھی کچھ صحیح طریقے سے کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

وہ اپنے ایک انتخابی دَورے کے دوران پیش آنے والے اُس واقعے کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جس میں اُن کی ایک خاتون ووٹر کے بارے میں کہی گئی یہ بات کہ وہ خاتون متعصب ہے، غلطی سے ریکارڈ ہو کر نشر بھی ہو گئی تھی۔ بعد میں براؤن کو اِس خاتون سے معافی مانگنا پڑی تھی۔

برطانوی پریس نے اِس واقعے پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا لیکن عوام نے اِس واقعے کو غالباً زیادہ اہمیت نہیں دی کیونکہ رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر پارٹی کی حمایت میں کوئی زیادہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب تک کے زیادہ تر جائزوں میں لیبر پارٹی کنزرویٹو پارٹی اور روایتی طور پر تیسرے نمبر پر رہنے والے لبرل ڈیموکریٹس کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔

NO FLASH Großbritannien Wahlen TV-Duell Gordon Brown Nick Clegg und David Cameron
برطانوی انتخابات میں شریک تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدینتصویر: AP

کنزرویٹو رہنما ڈیوڈ کیمرون کا اصرار ہے کہ اُن کی جماعت برطانیہ کو باقی یورپ سے فاصلے پر رکھتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی کو یقینی بنائے گی:’’ایک کام ہے، جو مَیں نہیں کروں گا: اب جبکہ یونان اِس قدر خبروں میں ہے، مَیں کبھی بھی یورو زون میں شامل نہیں ہوں گا اور پاؤنڈ کو ہی اپنی کرنسی رکھوں گا۔‘‘

لبرل ڈیموکریٹس کو پہلے ٹی وی مباحثے کے بعد سے بہت تقویت ملی ہے اور اُن کے لیڈر نِک کلیگ ووٹرز سے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ اُن کی جماعت کو دئے گئے ووٹ کو ضائع شُدہ ووٹ نہ سمجھیں:’’میرے خیال میں آپ اور آپ کے کنبے جس انصاف، خوشحالی اور ملازمتوں کے مستحق ہیں، اُسے آپ تک پہنچانے کے لئے ہمیں ذرا مختلف طریقے سے کام کرنا ہو گا۔‘‘

رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں میں اپوزیشن کی کنزرویٹو پارٹی کو لبرل ڈیموکریٹس اور لیبر پارٹی پر معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس اور لیبر پارٹی کے لئے عوامی حمایت تقریباً ایک جیسی ہے اور اُن کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کی سبقت بھی اتنی زیادہ نہیں کہ وہ ایک اکثریتی حکومت قائم کر سکے۔ ایسے میں ابھی بھی ایک معلق پارلیمان وجود میں آيے کا امکان ہے اور یہ ایسی صورِ حال ہے، جو 70ء کے عشرے سے دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ معلق پارلیمان اُسے کہتے ہیں جب برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں کوئی بھی سیاسی جماعت کامل اکثریت حاصل نہ کر پائے۔

Großbritannien Wahlen TV-Duell Nick Clegg und David Cameron
کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر ڈیوڈ کیمرون (بائیں) اور لبرل ڈیموکریٹک لیڈر نِک کلیگتصویر: AP

انتخابات کے بعد کا منظر نامہ کیسا ہو گا، اِس بارے میں کوئی بھی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے لیکن وزیر اعظم براؤن کا اصرار ہے کہ وہ لڑے بغیر میدان نہیں چھوڑیں گے:''مَیں معاشی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہا ہوں کیونکہ مَیں یورپ میں اپنے اردگرد پیش آنے والے حالات کو دیکھ رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ معاشی بحالی کا عمل کتنا نازُک ہوتا ہے، آپ اِس میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ آپ کو اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان اہم مہینوں میں آپ معیشت کو سہارا دیں۔‘‘

انتخابات سے چند روز قبل کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں: کوئی نہیں جانتا کہ ارکانِ پارلیمان کے ہوش رُبا اخراجات کے سکینڈل کے حوالے سے ووٹرز کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا بہت سے ووٹرز گھر پر ہی رہیں گے، ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے؟ کیا بہت سے ووٹرز چھوٹی جماعتوں مثلاً گرینز یا پھر آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں گے؟ لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر روڈنی بارکر کے خیال میں اِسی غیر یقینی صورتِ حال کے باعث زیادہ رائے دہندگان ووٹ ڈالنے جائیں گے اور ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ رہے گی:’’انتخابات کے نتائج جتنا زیادہ غیر یقینی نظر آتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ کسی گھڑ دوڑ یا پھر کسی فٹ بال میچ کی طرح ہوتے ہیں۔ اُتنا ہی زیادہ وہ عوام کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر عوام کی انتخابات میں شرکت بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ ایسا نہیں ہوتا تو مجھے یقیناً مایوسی ہو گی۔‘‘

ایک عرصے سے یہ پیشین گوئی کی جا رہی ہے کہ برطانیہ ایک معلق پارلیمان کی جانب بڑھ رہا ہے اور وہاں ایک مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ تاہم ایک سروے کے مطابق 46 فیصد ووٹروں کا موقف یہ ہے کہ وہ انتخابات کے دن سے کچھ ہی پہلے اپنی رائے تبدیل بھی کر سکتے ہیں، گویا چھ مئی کے انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ:اولی بیریٹ (لندن) / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق