1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: مسلم خواتین انگریزی سیکھیں، انتہا پسندی ختم ہو گی

شمشیر حیدر18 جنوری 2016

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مسلمان عورتوں کو انگریزی زبان سکھانے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی میں امتیازی سلوک اور صنفی تفریق سے نبرد آزما ہو سکیں۔

https://p.dw.com/p/1HfLv
Burka Verbot Frankreich Frauen
تصویر: CLAUDE PARIS/AP/dapd

ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ’رجعت پسند رویوں‘ کے حامل ان مٹھی بھر مسلمان مردوں کا مقابلہ کیا جائے، جو مسلمان عورتوں کی زندگیوں پر منفی طور پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

برطانوی وزیر اعظم نے برطانوی معاشرے سے کٹی ہوئی برادریوں کی خواتین کو انگریزی زبان سکھانے کے لیے بیس ملین برطانوی پاؤنڈ مختص کیے ہیں۔ یہ اقدامات ایسی برادریوں کے برطانوی معاشرے میں انضمام کے لیے شروع کی گئی مہم کا حصہ ہیں۔

کیمرون کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ نوّے ہزار یا بائیس فیصد مسلمان خواتین ایسی ہیں، جو کئی دہائیوں سے برطانیہ میں رہنے کے باوجود بہت کم انگریزی بول سکتی ہیں جب کہ چالیس ہزار مسلمان عورتیں ایسی بھی ہیں، جو انگزیری زبان سے مکمل طور پر ناواقف ہیں۔

اس بارے میں کیمرون کا یہ بھی کہنا تھا، ’’یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ساٹھ فیصد پاکستانی یا بنگلہ دیشی خواتین اقتصادی طور پر غیر فعال ہیں۔‘‘

کیمرون کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتہا پسندی کا مسئلہ بھی معاشرتی انضمام نہ ہونے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کی بیان کردہ صورت حال صنفی امتیاز اور برطانیہ کی روزمرہ زندگی سے دوری کی ایک بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔

برطانوی روزنامے میں لکھے گئے مضمون میں کیمرون نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں رجعت پسند سوچ رکھنے والے ان چند مردوں سے نمٹنا ہو گا، جو اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اور آئندہ ہمیں کبھی بھی سچ نہ کہنے اور خاموشی سے برداشت کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔‘‘

برطانیہ کے وزیر اعظم کے مطابق برطانیہ کے معاشرے کو ’’اپنی لبرل اقدار کے فروغ کے لیے زور دینا چاہیے۔ ہمیں ان لوگوں کو بتانا چاہیے کہ ہماری ان سے کیا توقعات وابستہ ہیں، جو برطانیہ آنا چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ مل کر ملکی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اور اس ضمن میں حائل رکاوٹوں کو کھلے دل اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ختم کرنا چاہیے۔‘‘

Muslima in London
ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ ساٹھ فیصد پاکستانی یا بنگلہ دیشی خواتین اقتصادی طور پر غیر فعال ہیںتصویر: AP

کیمرون کا کہنا تھا کہ اس بات کا انحصار تارکین وطن پر ہے کہ اگر وہ برطانیہ میں اپنے قیام میں توسیع چاہتے ہیں یا شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انگریزی زبان کی مہارت کو بہتر بنائیں۔

کیمرون نے مزید کہا، ’’اب ہم انہیں کہیں گے کہ اگر وہ اپنی انگریزی بہتر نہیں کریں گے تو اس سے ان کا برطانیہ میں قیام متاثر ہو سکتا ہے۔ ایسے اقدامات ان مردوں پر یہ بات واضح کر دیں گے کہ اگر وہ اپنی بیویوں کو معاشرتی انضمام سے روکیں گے تو انہیں نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید