1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ پانچ برسوں میں 20 ہزار شامی باشندوں کو پناہ دے گا

امتیاز احمد7 ستمبر 2015

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوامی سطح پر شدید ہوتے ہوئے مطالبے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک آئندہ پانچ برسوں میں تقریباﹰ بیس ہزار شامی باشندوں کو اپنے ملک میں سیاسی پناہ فراہم کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1GSPZ
Ungarn Flüchtlinge an der Grenze zu Österreich
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے آج اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے شامی باشندوں کی مدد کے لیے تیار ہے اور آئندہ پانچ برسوں میں مرحلہ وار بیس ہزار تک افراد کو سیاسی پناہ دی جائے گی۔ آج برطانوی پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا، ’’ہم یہ پارلیمان میں یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ برطانیہ میں بیس ہزار تک شامی مہاجرین کی دوبارہ آباد کاری کی جائے گی۔ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں گے کہ یہ ملک بہت زیادہ درد مند ہے۔‘‘

یاد رہے کہ اس اعلان سے پہلے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے یہ خبریں نشر کی تھیں کہ کیمرون حکومت مزید پندرہ ہزار شامی مہاجرین قبول کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ اخبار کے مطابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ملکی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے ڈوب کر ہلاک ہو جانے والے کم سن شامی بچے ایلان کُردی کی تصویر کو دیکھ کر گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔

Bild des Tages 07.09.2015 Flüchtlinge Notunterkunft
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner

اس شامی بچے کی ہلاکت سے پہلے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مزید تارکین وطن قبول کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی ریکارڈ تعداد یورپ پہنچی ہے، جس کے بعد تمام یورپی ملکوں سے یہ بوجھ اٹھانے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس وقت برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پہلے ہی شام کے حقیقی مہاجرین کو سیاسی پناہ دے چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں استحکام لایا جائے، جہاں سے یہ لوگ نقل مکانی کر کے یورپ پہنچ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو کئی دوسرے ملک بھی پُر کشش نظر آتے ہیں لیکن برطانیہ کو وہ خواب نگر سمجھتے ہیں۔ فرانس سے انگیلنڈ جانے والی یورو ٹینل فرانسیسی علاقے کالے سے شروع ہوتی ہے اور یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے بے شمار مہاجرین ڈیرا ڈالے بیٹھے ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں مہاجرین کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سربراہ حبیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لندن اور برطانیہ کی سڑکیں سونے کی ہیں لیکن حقیقت اِس سے مختلف ہے۔ حبیب الرحمٰن کے مطابق لوگ نہیں جانتے کہ برطانیہ میں ایک ایک دن گزارنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔