1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ کو ’سانس لینے کی مہلت‘ مل گئی

افسر اعوان29 جون 2016

یورپی رہنماؤں نے تُند و تیز بحث کے بعد برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہونے کا قانونی عمل شروع کرنے سے قبل اس قدر وقت دے دیا ہے کہ وہ ’بریگزٹ‘ کے حق میں عوامی فیصلے سے لگنے والے دھچکے کو برداشت کرنے کے قابل ہو سکے۔

https://p.dw.com/p/1JFP6
ڈیوڈ کیمرون اور ژاں کلود یُنکر
ڈیوڈ کیمرون اور ژاں کلود یُنکرتصویر: Reuters/F. Lenoir

ساتھ ہی برطانیہ پر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ اس عمل کے آغاز کے لیے مہینوں تک انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ منگل 28 جون کو برسلز میں ہونے والی یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون 23 جون کے ریفرنڈم کے بعد پہلی مرتبہ اپنے یورپی ساتھیوں کے رو برو ہوئے۔ یورپی رہنماؤں نے اس سربراہ ملاقات کو ’سوگوار‘ مگر مفید قرار دیا۔

ریفرنڈم کے بعد برطانیہ کے داخلی حالات

جمعرات کے روز برطانیہ میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں یورپی یونین کے حق میں ووٹنگ کے بعد عالمی مارکیٹوں کو کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ کا اپنا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا ہے کیونکہ اسکاٹ لینڈ نے کہا ہے کہ اُس نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے اس لیے وہ ایک بار پھر برطانیہ سے آزادی کے لیے ریفرنڈم منعقد کرا سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ برطانوی سیاست میں بھی شدید ہلچل دیکھنے میں آئی ہے اور ووٹنگ کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی آئندہ اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔

چونکہ اس ریفرنڈم میں برطانوی دارالحکومت لندن کے عوام نے بھی یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہی ووٹ دیا تھا، اس لیے ہزارہا لوگ لندن کی سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور ریفرنڈم کے نتائج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے یورپی یونین کے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور ان کے پلے کارڈز پر تحریر ہے کہ بریگزٹ کو روکو۔

برطانیہ میں آئندہ اقدامات سے قبل ’گرد بیٹھ جانے تک‘ کچھ وقت درکار ہو گا، ڈونلڈ ٹُسک
برطانیہ میں آئندہ اقدامات سے قبل ’گرد بیٹھ جانے تک‘ کچھ وقت درکار ہو گا، ڈونلڈ ٹُسکتصویر: Reuters/P. Noble

برطانیہ کے لیے یورپی رہنماؤں کا سخت رویہ

منگل 28 جون کو برسلز میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی سربراہی بات چیت کے بعد یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ میں آئندہ اقدامات سے قبل ’گرد بیٹھ جانے تک‘ کچھ وقت درکار ہو گا۔ تاہم برطانیہ کو مثال بناتے ہوئے دیگر یورپی ریاستوں کی طرف سے بھی ممکنہ طور پر یورپی یونین چھوڑنے جیسے تحفظات کے حوالے سے یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے پاس ’معاملات طے کرنے کے لیے مہنیوں کا وقت‘ نہیں ہے۔

انہوں نے کیمرون کے بعد رواں برس ستمبر کے اوائل میں برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کی طرف سے عہدہ سنبھالنے کے بعد آرٹیکل 50 کو عمل میں لانے کے لیے ایک واضح ٹائم ٹیبل دیا۔ خیال رہے کہ یورپی یونین کے لزبن ٹریٹی کے مطابق کسی ملک کو یونین سے الگ ہونے کے لیے اس آرٹیکل کا سہارا لینا ہو گا اور الگ ہونے کے عمل کے لیے کم از کم دو برس کا وقت درکار ہو گا۔

یورپی یونین برطانیہ سے جلد از جلد ’جان چھڑانے‘ کی کوشش میں

یُنکر کا کہنا تھا کہ اگر نیا برطانوی وزیر اعظم بھی اُن لوگوں میں سے ہوا جو یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہیں، تو برطانیہ کے پاس آرٹیکل 50 کو لاگو کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت ہو گا۔ لیکن اگر نیا وزیر اعظم یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ہوا تو اس کے عہدہ سنبھالنے کے اگلے دن ہی اس آرٹیکل کا نفاذ ہو جانا چاہیے۔