1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'برطانیہ کو یورپی یونین سے اخراج میں جلدی نہیں کرنی چاہیے‘

شامل شمس
23 اکتوبر 2016

اپنی ایک حالیہ تقریر میں برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے اپنے ملک کے یورپی یونین سے اخراج کے حوالے سے ’ہارڈ بریگزٹ‘ کا ذکر کیا تھا، تاہم جرمن ماہر معیشت کلیمنز فؤسٹ نے مے کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2RaFk
Belgien Brüssel EU Gipfeltreffen Premierministerin Theresa May
تصویر: picture-alliance/AP Images/A. Grant

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں معیشت دان کلیمنز فؤسٹ نے برطانوی وزیر اعظم مے کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے اخراج کے معاملے پر ’’احتیاط‘‘ اور ’’کامن سینس‘‘ (سمجھ داری) سے کام لینا چاہیے۔ فؤسٹ کا تعلق جرمنی کے مؤقر ادارے آئی ایف او سے ہے جس کا دائرہ کار معاشی تحقیق ہے۔

برطانوی وزیر اعظم مے نے ایک حالیہ تقریر میں ’’ہارڈ بریگزٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی، جس سے ان کی مراد یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے حوالے سے غیر لچک دار رویے کا عدنیہ تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بریگزٹ مذاکرت میں وہ مہاجرین سے متعلق پالیسیوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گی۔ تاہم فؤسٹ نے اس سخت گیر مؤقف سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے۔

''میں امید کرتا ہوں کہ تمام فریق ہوش کے ناخن لیں گے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ’ہارڈ بریگزٹ‘ ناممکن ہے،‘‘ فؤسٹ نے ڈی پی اے سے جرمن دارالحکومت برلن میں بات کرتے ہوئے کہا۔

'ہارڈ بریگزٹ‘ سے مراد عمومی طور یورپی یونین سے جلد از جلد اخراج لی جاتی ہے، جس میں فریقین متنازعہ امور پر لچک دکھانے سے انکار کرتے ہیں۔ جن امور پر اس وقت یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ان میں برطانیہ کی جانب سے مہاجرین کی یورپ سے برطانیہ آمد کو روکنے کے لیے سحت اقدامات اور برطانیہ کا یورپی یونین کی مجموعی مارکیٹ ترک کرنا سرفہرت ہیں۔

فؤسٹ کا کہنا ہے کہ فریقین کو سست روی سے مراحل طے کرنا چاہییں، ایک عبوری عرصہ جو برطانیہ کے اٹھائیس رکنی یورپی بلاک سے اخراج کا عمل مکمل کرنے پر محیط ہو اور کم از کم اسے کے لیے دس برس لگائے جائیں۔

فؤسٹ کا کہنا تھا کہ جلد بازی کے نتیجے میں برطانوی مارکیٹ اور اس کی کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جون کے مہینے میں یورپی یونین کے چھ بانی اراکین ممالک کے وزرائے خارجہ نے جرمن دارالحکومت برلن میں ملاقات کی تھی جس کے بعد ان کی طرف سے کہا گیا کہ برطانوی حکومت کو یورپی یونین سے جلد از جلد الگ ہو جانا چاہیے۔

ان کے موقف کے برعکس جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن سے مغرب کی طرف واقع تاریخی جرمن شہر پوٹسڈام کے مضافات میں ہرمنز ورڈر کے مقام پر اپنی قدامت پسند سیاسی جماعت سی ڈی یو کے سیاست دانوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا تھا، ’’برطانیہ سے مذاکرات کا انداز تجارتی ہونا چاہیے۔ یہ بات چیت ایک خوش گوار فضا میں ہونی چاہیے۔‘‘

میرکل کا کہنا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کا ایک قریبی ساتھی رہے گا اور اس کے ساتھ یورپی اتحاد کا گہرا اقتصادی تعلق رہا ہے۔ جرمن چانسلر نے واضح الفاظ میں کہا ہے، ’’یورپی معاہدے کے آرٹیکل نمبر 50 کے تحت لندن حکومت کو یورپی یونین چھوڑنے کے عمل میں کسی جلد بازی سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

فرانس، اٹلی، ہالینڈ، بیلجیم اور لکسمبرگ کے وزرائے خارجہ کی طرف سے برطانیہ کے اخراج کو جلد از جلد عمل میں لانے کے مطالبے کے برعکس جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ اس عمل کو بہت طول نہیں دینا چاہیے لیکن میں اس وقت اس میں جلدی کے لیے کوئی زور نہیں دوں گی۔‘‘

کیا یورپی یونین کی بقاء خطرے میں ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید