1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن: تشدد کی علامت ريوٹلی اسکول اب ايک مثالی ادارہ

عاصم سليم18 نومبر 2015

برلن کا ايک اسکول جو قريب ايک دہائی قبل حکام اور اساتذہ کے ليے درد سر ثابت ہو رہا تھا، آج انضمام کی ايک بہترين مثال مانا جاتا ہے۔ ماہرين اس اسکول کی مثال سامنے رکھتے ہوئے مہاجرين کے ليے بہتر انضمام کا مطالبہ کر رہے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1H832
تصویر: picture-alliance/dpa

قريب ايک دہائی قبل جرمن دارالحکومت برلن کے نيو کولون نامی علاقے ميں قائم ريوٹلی اسکول ’مہاجرين کے انضمام‘ سے متعلق حکام کی غلط پاليسيوں کی علامت بن کر سامنے آيا تھا۔ اسکول ميں رونما ہونے والے تشدد کے نتيجے ميں اساتذہ نے شہری حکومت سے اسکول کو بند کر دينے کا مطالبہ کيا تھا۔ آج ريوٹلی اسکول مکمل طور پر تبديل ہو چکا ہے اور ديکھنے والے يہ تصور بھی نہيں کر سکتے کہ 2006ء ميں يہی وہ مقام تھا، جہاں طلباء پوليس اہلکاروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر پتھراؤ کرتے ديکھے جا سکتے تھے۔

پچھلے کچھ سالوں کے دوران اس اسکول پر تينتيس ملين يورو خرچ کيے جا چکے ہيں اور سابق جرمن صدر يوہانیس راؤ کی اہليہ اب اس کی نگران ہيں۔ تشدد اب نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اسکول کے احاطے ميں تعمير کردہ ايک ہال فن پاروں کی نمائش کے ليے استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی جديد ترين ٹيکنالوجی اور آلات سے ليس ايک جمنيزيم بھی موجود ہے۔

جرمن حکام کے سامنے اس وقت شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور چند شمالی افريقی ممالک سے سياسی پناہ کے ليے جرمنی آنے والے تارکين وطن کے انضمام اور انہيں تعليم فراہم کرنے کا کافی بڑا چيلنج کھڑا ہے۔ برلن کے ريوٹلی اسکول ميں آنے والی تبديلی حکام کے ليے اس بات کی مثال ہے کہ انضمام پر اگر سنجيدگی سے اور پُر عزم انداز سے توجہ دی جائے، تو نا ممکن کو ممکن بنايا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ايک دہائی قبل کا ريوٹلی اسکول اس بات کی تنبيہ بھی ہے کہ اگر انضمام کو حکومت کی پشت پناہی حاصل نہ ہو، تو معاملات کس طرح ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہيں۔

ماہرين کے بقول زيادہ کارآمد يہ ہو گا کہ انضمام پر مبنی تعليمی نظام پر رقوم خرچ کی جائيں
ماہرين کے بقول زيادہ کارآمد يہ ہو گا کہ انضمام پر مبنی تعليمی نظام پر رقوم خرچ کی جائيںتصویر: picture-alliance/dpa

سن 2001 سے ريوٹلی اسکول سے وابستہ اور اب اس کی پرنسپل کورڈُولا ہيکمان بتاتی ہيں کہ انہوں نے سيکھا ہے کہ انضمام کو باقاعدہ ایک شکل و صورت دينا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے اپنے تجربے سے يہی سيکھا ہے کہ انضمام کے عمل کو بلا نگرانی نہيں چھوڑا جا سکتا۔‘‘

ريوٹلی اسکول جرمن دارالحکومت کے ايک ايسے علاقے ميں واقع ہے، جہاں اکثريتی طور پر ترک وطن پس منظر کےحامل خاندان رہتے ہيں۔ محلے کے قريب باون فيصد مکين ہجرت کر کے جرمنی آنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی ميں افرادی قوت کی سخت ضرورت تھی۔ ايسے ميں 1960ء اور 1970ء کی دہائيوں ميں جنوبی يورپ اور ترکی سے لاکھوں ’گيسٹ ورکرز‘ يا مہمان ملازمين نے يہاں کا رخ کيا۔ اپنے اوپر ’گيسٹ ورکرز‘ کی چھاپ کے سبب کچھ ايسے ملازمين بعد ازاں واپس اپنے ممالک چلے گئے جبکہ کچھ نے جرمنی ميں مستقل قيام کا فيصلہ کر ليا۔ آج جرمنی کی آبادی کا بيس فيصد حصہ ہجرت کا پس منظر رکھنے والے خاندانوں پر مشتمل ہے۔

پچھلی کچھ دہائيوں ميں جرمنی انضمام کے حوالے سے ناکافی اقدامات کے سبب تنقيد کی زد ميں رہا ہے۔ ليکن رواں سال قريب ايک ملين پناہ گزينوں کی آمد کے تناظر ميں اب انضمام ايک ناگزير عمل ہے۔ برلن کی فری يونيورسٹی ميں پوليٹيکل سائنس کی ايک پروفيسر سابينے آخور کا کہنا ہے کہ کامياب انضمام کا دارومدار چھوٹی عمر سے مقامی زبان کی تربيت اور تعليم کی فراہمی پر ہے۔

پچھلے چھ سالوں کے دوران برلن حکام کی جانب سے ’فل ڈے اسکول‘ يا پورے دن کے ليے اسکول کی سہولت فراہم کرنے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے قريب چار بلين يورو کی سرمايہ کاری کی گئی ہے۔ عموماً جرمن اسکول دوپہر بارہ بجے تک بند ہو جاتے ہيں۔ اس اقدام کا ايک مقصد ہجرت کے پس منظر والے بچوں اور عام بچوں کے درمیان فرق کو کم کرنا ہے تاکہ وہ ايک دوسرے کے ساتھ زيادہ وقت صرف کر سکيں۔

پروفيسر سابينے آخور کے مطابق اس بات کے امکانات موجود ہيں کہ حکومت اسلامی انتہا پسندی کے خاتمے کے ليے سرمايہ کاری کرے جبکہ زيادہ کارآمد يہ ہو گا کہ انضمام پر مبنی تعليمی نظام پر رقوم خرچ کی جائيں۔