1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں مساجد پر حملے

3 جنوری 2011

گزشتہ چند ماہ کے دوران برلن میں قائم مساجد اور مسلمانوں کے مراکز پر متعدد حملے ہوئے ہیں۔ مبصرین کی رائے میں ان حملوں کی جڑیں جرمنی میں آباد مسلمانوں کے سماجی انضمام کے مسائل پر ایک عرصے سے چھڑی ہوئی بحث سے ملتی ہیں

https://p.dw.com/p/zssh
شہتلک مسجد میں اوپن ڈے کا انعقادتصویر: picture-alliance/dpa

گزشتہ ماہ یعنی دسمبر میں برلن کے ایک گنجان آبادی والے علاقے ٹیمپل ہوف میں قائم ایرانی کلچرل سینٹر کی عمارت کے جلوئی حصے میں ایک پٹرول بم کا زوردار دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں اس عمارت کے سامنے والے حصے کو شدید نقصان پہنچا ۔ دھماکہ اتنے زور کا تھا کہ بہت دیر تک علاقے سے دھواں اٹھتا دکھائی دیتا رہا۔ اس واقعے سے چند روز قبل برلن کے علاقے نوئے کُلن میں جسے غیر ملکیوں، خاص طور سے تارکین وطن مسلمانوں کا گڑھ مانا جاتا ہے، قائم شہتلک مسجد پر بھی حملہ کیا گیا۔ گزشتہ موسم گرما سے اب تک اس مسجد پر ہونے والا یہ چوتھا حملہ تھا۔ ان حملوں میں گرچہ کوئی زخمی نہیں ہوا تاہم جرمن دارالحکومت کی انتظامیہ کو ان واقعات کی وجہ سے گہری تشویش لاحق ہو گئی ہے۔

Integrationsgipfel 2010 Berlin Migration
2010 میں برلن میں تارکین وطن کے انضمام سے متعلق ایک اجلاس کا انعقاد ہواتصویر: picture-alliance/dpa

برلن میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے کے صوبائی اہلکاروں نے اس قسم کے حملوں کی چھان بین کے لئے ایک اسپیشل ٹاسک فورس قائم کر دی ہے۔ پولیس کے ایک ترجمان کلاؤس شوبرٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے تفتیشی کارروائیوں کی نوعیت کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ چھان بین سے اب تک ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ یہ حملے مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچانے کے لئے کئے گئے ہیں۔

دریں اثناء برلن کے صوبائی وزیر داخلہ ایرہارڈ کورٹنگ نے بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کے مراکز پر ہونے والے حملوں کا تعلق جرمنی میں مسلمان تارکین وطن کے سماجی انضمام کی بحث سے ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں اس بحث کو اس حد تک سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے کہ ملک میں اسلام سے خوف اور مسلمان تارکین وطن کے خلاف نفرت کا ایک ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو حوصلہ ملا ہے اور وہ جگہ جگہ حملوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تمام عناصر کو ان حالات سے خبر دار ہو جانا چاہیے جو دیدہ و دانستہ معاشرے میں اس قسم کی فضا پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔

Deutschland Flash-Galerie Moschee Khattab-Moschee in Berlin-Kreuzberg
برلن میں قائم خطاب مسجدتصویر: picture alliance / dpa

برلن میں آباد مسلمانوں کی طرف سے ان کے مراکز پر ہونے والے حملوں پر کوئی مشتعل رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ایرانی کلچرل سینٹر کے ایک نمائندے نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اس حملے کے بعد سے اپنے مرکز کی سکیورٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ اس سے ہمارے مرکز میں آنے والوں کی تعداد کم نہیں ہوئی ہے نہ ہی ہمارے لوگ خوف زدہ ہوئے ہیں‘۔

اسی طرح کا بیان ترک باشندوں کی قائم کردہ شہتلک مسجد کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے یاوؤز سیلیم آکگیوُل نے بھی دیا ہے۔ ان کے مطابق ایک کے بعد دوسری مسجد کو حملے کا نشانہ بنانے کا مقصد صاف ظاہر ہے تاہم مسلمان نظم و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ واقعات کسی بھی طرح سے کوئی مثبت تاثر نہیں دیتے۔

تاہم شہتلک مسجد کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور اب وہاں 24 گھنٹے گارڈز پہرہ دیتے ہیں جبکہ اس مسجد کے مرکزی دروازے کے سامنے پہرے پر مامور پولیس گارڈز کو سکیورٹی خدشات کے سبب پولیس نے وہاں سے ہٹا دیا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں