1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برہان وانی کی موت کے بعد خونریزی تاحال جاری، درجنوں ہلاکتیں

مقبول ملک13 جولائی 2016

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں باغی رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی خونریزی کی لہر تاحال جاری ہے۔ مظاہرین کی سکیورٹی دستوں کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک کم از کم تیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JO9b
Kaschmir Auseinandersetzungen in Srinagar
نوجولائی سے اب تک پرتشدد مظاہروں میں کم ازکم تیس افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے بدھ تیرہ جولائی کے روز موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے جب بھارتی سکیورٹی دستوں نے نوجوان کشمیری عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی ایک مسلح جھڑپ میں ہلاکت کا اعلان کیا تھا، تو اس موت کو حکام نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی جنگ میں ایک بڑی کامیابی کا نام دیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کو کشمیری باغیوں کے خلاف اپنی ’کامیابی‘ کے اس اعلان پر اس ردعمل کی قطعاﹰ کوئی توقع ہی نہیں تھی، جو انہیں دیکھنے کو ملا اور اب تک نظر آ رہا ہے۔

برہان وانی کی موت پر کشمیری عوام انتہائی حد تک طیش میں آ گئے، ہر روز مظاہرے ہو رہے ہیں، کشمیر میں کئی مقامات پر بھارتی دستوں کو کرفیو لگانا پڑا اور اب تک خونریزی کی یہ نئی لہر سڑکوں پر درجنوں ہلاکتوں اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کی وجہ بن چکی ہے۔

اکیس سالہ برہان وانی مسلح کشمیری باغیوں کی تنظیم حزب المجاہدین کے اعلیٰ ترین کمانڈروں میں سے ایک تھا، جو بھارتی حکمرانی کے مخالف کشمیریوں کی نوجوان نسل میں بہت مقبول تھا اور جس کی موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہزارہا کشمیری مظاہرین وادی کے مختلف شہروں اور قصبوں کی سڑکوں پر نکل آئے اور ایک بار پھر ان کا بلند آواز مطالبہ تھا: بھارتی حکمرانی سے ’آزادی‘۔

Indien Kaschmir Auseinandersetzungen in Srinagar Straßensperre
سری نگر میں نافذ کرفیوکا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa/F. Khan

نو جولائی گزشتہ ہفتے کے روز شروع ہونے والے ان مظاہروں اور کشمیری مظاہرین کی بھارتی سکیورٹی دستوں کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم بھی تیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں چند سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں لیکن دو درجن سے بھی زائد ہلاک شدگان عام کشمیری مظاہرین تھے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی تعداد بھی کم از کم تین چار سو تک بتائی جا رہی ہے، جن کے مقامی ہسپتالوں میں علاج کے لیے بستر بھی کم پڑ چکے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران اب تک ہر روز پتھراؤ کرنے والے نوجوان کشمیری مظاہرین کے احتجاج میں صرف تیزی ہی آئی ہے اور مطاہرین کو کرفیو کی بھی کوئی پرواہ نہیں جبکہ بھارتی دستوں کی طرف سے ان کے خلاف فائرنگ کے علاوہ آنسو گیس بھی استعمال کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں بھارتی حکام میں اب یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ برہان وانی کی موت کے ساتھ نادانستہ طور پر ایک ایسی بغاوت کو دوبارہ ہوا دے بیٹھے ہیں، جسے کنٹرول کرنا بہت مشکل بھی ہو سکتا ہے۔ کشمیر میں مسلح بغاوت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں شریک ایک اعلیٰ بھارتی سکیورٹی اہلکار نے تو اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ اعتراف بھی کیا، ’’ہم اتنے شدید عوامی ردعمل کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ یہ بات پریشان کن ہے۔‘‘

اس موضوع پر اپنے تفصیلی مراسلوں میں متعدد خبر رساں اداروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ برہان وانی کشمیری عسکریت پسندوں کے سب سے بڑے گروپ کا ایک ایسا رہنما تھا، جس کی ہلاکت سے پہلے بھی ایسے واضح اشارے موجود تھے کہ اس مسلم اکثریتی خطے میں ایک نئی بغاوت کے لیے فضا تیار ہو چکی ہے۔

بہت سے کشمیریوں کی جذباتی حالت اس وقت یہ ہے کہ جیسے وہ برہان وانی کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ایسی صورت میں کئی تجزیہ نگار ایک سے زائد مرتبہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’زندہ برہان وانی کے مقابلے میں یہ کشمیری باغی رہنما اپنی ہلاکت کے بعد اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں