1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ کے بعد یورپی یونین میں توسیع کے امکانات

عابد حسین19 جولائی 2016

یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے بوسنیا کی حکومت پوری کوششوں میں ہے۔ اِس ملک کی ان کوششوں میں جرمنی کا تعاون بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود رکنیت کی راہ میں بوسنیا کو ابھی بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JRUf
سراژیوو میں یورپی یونین کا جھنڈاتصویر: DW/Z.Ljubas

بلقان خطے کی نسلی اعتبار سے منقسم ریاست بوسنیا کی حکومت نے یورپی یونین کے ایک معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش مند ریاستوں کے استحکام سے متعلق معاہدہ ’ایس اے اے‘ کہلاتا ہے۔ اِس معاہدے کی منظوری کے خلاف بوسنیا میں شامل سرب ریپبلک نے واضح آواز بلند کی ہے۔ بوسنیائی سرب جمہوریہ کے صدرمیلوراد دودِچ کا کہنا ہے کہ اِس معاہدے کے کسانوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بلقان علاقے کے امور کی ماہر علیدا وَرَاچچ کا کا کہنا ہے کہ صرف بوسنیا و ہیرزیگووینا کے معاملات میں جرمنی کا کردار کلیدی نہیں بلکہ سارے خطے میں جرمنی ایک اہم کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان ریاستوں میں ترکی، چین، روس اور عرب ممالک کا اثر و رسوخ واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق بوسنیا کے علاوہ دیگر بلقان خطے کی ریاستوں کے عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کے سماجی و معاشی حالات میں بہتری یورپی یونین میں شمولیت سے ممکن ہے۔

Deutschland Bosnien und Herzegowina Merkel mit Covic, Ivanic, Izetbegovic PK
جرمن چانسلر میرکل بوسنیا کی لیڈرشپ کے ساتھتصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

سیاسی امور کی ماہر علیدا وراچچ کا کہنا ہے کہ بلقان ریاستوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر جرمن حکومت کی گہری نظر ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کے علاوہ برطانیہ بھی بلقان ریاستوں میں اہم کردار ادا کرنے کی کوششوں میں تھا۔ اس تناظر میں بوسنیا و ہیرزیگووینا کے سیاستدان اور ماہرین کا خیال ہے کہ بریگزٹ کے بعد ایک طرح سے اِس خطے میں برطانوی کردار معدوم ہو گیا ہے اور اب یورپی یونین کی سمت جانے والی شاہراہ پر رہنمائی کے لیے جرمنی کا کردار زیادہ واضح اور اہم ہو گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بوسنیا کی سماجی و معاشی ترقی میں ابھی بھی برطانیہ فعال ہے اور بین الاقوامی امدادی کوششوں میں وہ شامل ہے لیکن بتدریج اِس میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جائے گی۔

بوسنیا کے مقامی تجزیہ کاروں کو یقین نہیں کہ موجودہ قیادت اُن کے ملک کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے حصول میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ برطانیہ کے اخراج کے بعد کیا یورپی یونین اپنے توسیعی پروگرام کو پوری طرح فعال رکھنے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ فوری طور پر اِس سوال کا جواب مشکل ہے کیونکہ ابھی برطانوی انخلا کی شرائط اور دوسرے انتظامی معاملات طے ہونا باقی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورپی یونین کی قیادت کو ایک بڑے تصور کے ساتھ فعال ہونا ہو گا بصورت دیگر بریگزٹ جیسی صورت حال کئی اور ملکوں میں پیدا ہو سکتی ہے۔