1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بشار الاسد کو روس میں پناہ دے سکتے ہیں، پوٹن

افسر اعوان12 جنوری 2016

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ ابھی یہ بات کرنا قبل از وقت ہے، تاہم اگر شامی صدر بشارالاسد اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو روس انہیں سیاسی پناہ دے سکتا ہے۔ روس شامی صدر کی حکومت کا سب سے بڑا حمایتی ملک ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hbko
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Nikolskyi

شامی صدر بشارالاسد کی درخواست پر روس نے گزشتہ برس ستمبر میں شام کے اندر داعش کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جرمن روزنامے ’ڈی بِلڈ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ ماسکو شام کے اندر آئینی اصلاحات کی حمایت کر رہا ہے۔ آج منگل 12 جنوری کو چھپنے والے اس انٹرویو میں پوٹن کا مزید کہنا ہے کہ اگر ملک میں آئندہ انتخابات جمہوری ہوئے تو ’اسد کو کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہو گی‘، بھلے انہیں ان انتخابات میں کامیابی حاصل نہ بھی ہو۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس، امریکا اور مشرق وُسطیٰ کے ممالک شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے لیے کوشاں ہیں جبکہ مذاکرات کے ذریعے شام کے مسئلے کے حل کی راہ میں صدر بشارالاسد کی شخصیت کو ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمنی کے معروف ترین روزنامے کو دیے جانے والے انٹرویو کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا شامی صدر بشار الاسد کو روس میں سیاسی پناہ دیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا، ’’یقیناﹰ مسٹر سنوڈن کو روس میں پناہ دینا اسد کو پناہ دینے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل معاملہ تھا ۔‘‘

روس نے امریکی انٹیلیجنس ادارے این ایس اے کے ایک سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کو 2013ء میں اس وقت پناہ دی تھی جب خفیہ معلومات میڈیا کو فراہم کرنے پر ایڈورڈ سنوڈن کو کوئی ملک پناہ دینے پر تیار نہیں تھا۔

پوٹن کا کہنا تھا، ’’پہلے شامی عوام کو ووٹ دینے کا حق دینے کی راہ ہموار کرنا ہو گی اور پھر ہم دیکھیں گے کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہوتے تو انہیں ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے یا نہیں۔‘‘

شامی صدر بشارالاسد کی درخواست پر روس نے گزشتہ برس ستمبر میں شام کے اندر داعش کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا
شامی صدر بشارالاسد کی درخواست پر روس نے گزشتہ برس ستمبر میں شام کے اندر داعش کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھاتصویر: Reuters/RIA Novosti/Kremlin/A. Druzhinin

پوٹن نے یہ بات تسلیم کی کہ الاسد ’’اس تنازعے کے دوران بہت کچھ غلط کر چکے ہیں‘‘۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا: ’’یہ تنازعہ ہرگز اس قدر نہ بڑھتا اگر اسے شام کے باہر سے، ہتھیار، رقم اور جنگجو فراہم کر کے ہوا نہ دی جاتی۔‘‘

پوٹن نے شام کے حوالے سے روس کی پوزیشن کو ایک بار پھر دہرایا کہ وہ ایک دیرینہ اتحادی کی مدد کر رہا ہے تاکہ لیبیا کی طرح اسے ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہونے سے بچایا جا سکے: ’’ہم نہیں چاہتے کہ شام کا انجام بھی عراق یا لیبیا کی طرح ہو۔‘‘

جب پوٹن سے شامی فوج کی طرف سے اپنے ہم وطنوں کے خلاف فوجی بمباری کے بارے میں سوال کیا گیا تو پوٹن کا کہنا تھا، ’’اسد اپنی عوام کے خلاف نہیں لڑ رہے، بلکہ ان کے خلاف لڑ رہے ہیں جنہوں نے ان کی حکومت کے خلاف مسلح ایکشن شروع کر رکھا ہے۔ اگر ایسی صورتحال میں سول آبادی کو بھی نقصان پہنچتا ہے تو یہ اسد کا قصور نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ باغیوں اور ان کے غیر ملکی حامیوں کا قصور ہے۔‘‘