1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بغداد: گرجا گھر میں خونریز کارروائی، درجنوں ہلاک

2 نومبر 2010

امریکی اور عراقی سکیورٹی فورسز نے عراقی دارالحکومت بغداد کے ایک کیتھیڈرل میں درجنوں یرغمالیوں کو رہا کروانے کی کوشش کی۔ اِس کارروائی کے دوران کم از کم 52 افراد ہلاک جبکہ تقریباً 70 زخمی ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/PvMK
عراق کے کارڈینل چرچ کے دورے پرتصویر: dpa

آج پیر کو بغداد میں عراقی حکام نے بتایا ہے کہ اِس کارروائی کی ذمہ داری القاعدہ کی عراقی شاخ نے قبول کر لی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے حکام اور عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ شب عمل میں آنے والی اِس ڈرامائی کارروائی میں جو لوگ ہلاک ہوئے، اُن میں پانچ خواتین، سات بچے اور دو پادری بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں بھی دو خواتین اور آٹھ بچوں کے ساتھ ساتھ ایک پادری شامل ہے، جسے گردے میں گولی لگی ہے۔

وزارتِ داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا، ’اب تک 37 یرغمالی ہلاک جبکہ 56 زخمی ہوئے ہیں۔‘ اِس سرکاری عہدیدار کے مطابق سات سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے ہیں۔ عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ آیا مرنے والوں میں کوئی امریکی شہری بھی شامل ہے۔ کچھ دیگر خبر رساں ادارے مرنے والوں کی تعداد کم از کم 52 اور زخمیوں کی 70 بتا رہے ہیں۔

Geiselnahme Kirche in Bagdad Irak
یرغمال بنانے کی اِس کارروائی کے دوران کیتھیڈرل کے قریب واقع گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔ ایسے ہی ایک گھر کا مکین کنبہ اپنا تباہ شُدہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہےتصویر: AP

بتایا گیا ہے کہ پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ آٹھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وسطی بغداد کے سيدہ النجات کیتھولک کیتھیڈرل میں اُس وقت مجموعی طور پر ایک سو سے زیادہ مسیحی شام کی مذہبی سروِس کے دوران عبادت کر رہے تھے، جب حملہ آوروں نے اُن پر دھاوا بول دیا۔

اِس کیتھیڈرل کے قریب ہی بغداد اسٹاک ایکسچینج کا ہیڈکوارٹر بھی ہے، جہاں حملہ آوروں نے پہلے دو گارڈز کو ہلاک کیا۔ بعد ازاں اُنہوں نے عبادت کرتے مسیحیوں پر حملہ کرتے ہوئے اُنہیں یرغمال بنا لیا۔ کم از کم ایک شخص یرغمالیوں کو بچانے کے لئے کی جانے والی کارروائی سے پہلے ہلاک ہوا۔ رہا کروائے جانے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے بتایا کہ مسلح حملہ آوروں نے فوجی وردیاں پہنی ہوئی تھیں اور کیتھیڈرل میں گھُستے ہی اُنہوں نے سب سے پہلے ایک پادری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

Geiselnahme Kirche in Bagdad Irak
عراقی شہری اُس کیتھیڈرل کے سامنے جمع ہیں، جہاں گزشتہ شب حملہ آوروں نے چار گھنٹے تک ایک سو سے زیادہ افراد کو یرغمال بنائے رکھاتصویر: AP

بغداد کے بشپ شِلمون وردونی نے اِسے ایک غیر انسانی کارروائی قرار دیتے ہوئے اِس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا سلوک تو جانور بھی جانوروں سے نہیں کرتے۔ وردونی نے بتایا کہ حملہ آور عراق اور مصر میں قید اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

حکام کے مطابق جب پولیس نے کیتھیڈرل میں داخل ہونے کی پہلی کوشش کی تو حملہ آوروں میں سے کم از کم ایک نے، جو خود کُش جیکٹ پہنے ہوئے تھا، خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ یرغمالیوں کو رہا کروانے کی یہ کوشش بنیادی طور پر عراقی پولیس اور فوج کی طرف سے عمل میں لائی گئی تاہم امریکیوں نے بھی اُن کی مدد کی۔

بغداد میں کیتھیڈرل پر اِس حملے کی دُنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ ویٹی کن، اٹلی اور فرانس نے سب سے پہلے اِس حملے کے خلاف مذمتی بیانات دئے ہیں۔ 2003ء میں عراق میں تقریباً آٹھ لاکھ مسیحی آباد تھے تاہم مسیحی قائدین کا کہنا ہے کہ امریکی سرکردگی میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے بعد سے متعدد گرجا گھروں پر حملے کئے گئے اور سینکڑوں عراقی مسیحیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اِن حالات میں بہت سے عراقی مسیحی وطن چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جس کے بعد اِس ملک میں مسیحی آبادی کم ہو کر ساڑھے پانچ لاکھ تک آ چکی ہے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں