1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بغداد: گرجا گھر پر قبضہ اور عراقی فوج کا ایکشن

1 نومبر 2010

بغداد کے جس گرجا گھر کو عسکریت پسندوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اس کا قبضہ عراقی فوج نے خصوصی ایکشن میں چھڑا لیا ہے۔ اس واقعہ میں ہلاکتوں کی تعداد دو درجن تک بتائی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/PvCG
عراقی فوجی بغداد کے مرکز میں پہرہ دیتے ہوئےتصویر: AP

عراق کے دارالحکومت بغداد کے قلب میں واقع کیتھولک مسیحیوں کے ایک گرجا گھر کو اس وقت عسکریت پسندوں نے اپنے قبضے میں لے لیا جب اس کے اندر خصوصی دعائیہ عبادت جاری تھی۔ عبادت کرنے والے مسیحیوں کی تعداد 120تک بتائی گئی تھی۔ بعد میں چرچ کو واگزار کروانے کے لئے عراقی فوج کے کمانڈوز نے خصوصی ایکشن کیا۔ اس کارروائی میں ہلاکتوں کی سرکاری تعداد سات بتائی گئی ہے۔ دوسری جانب عراق میں موجود امریکی فوج کے مطابق اس ایکشن میں ہلاک شدگان کی تعداد چوبیس تک جا پہنچی ہے۔ بعض ذرائع ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

امریکی فوج کے مطابق گرجا گھر کے اندر ہلاک ہونے والوں میں دس تو وہ لوگ ہے جو عبادت میں مصروف تھے اور کارروائی کے دوران سات عراقی فوجی بھی مارے گئے۔ چرچ پر قبضہ کرنے والوں کی ہلاکتوں کی تعداد ابھی واضح نہیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق کم از کم پانچ عسکریت پسند یقینی طور پر مار دیے گئے تھے۔ تیس سے زائد زخمی بتائے جاتے ہیں۔ عراقی فوج کے ترجمان میجر جنرل قاسم الموسوی کے مطابق چرچ پر قبضہ چار گھنٹے تک جاری رہا۔ اغوا کار اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ رکھتے تھے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے قبول کر لی ہے۔

anschlag in irak
بغداد دہشت گردی: آگ بجھانے کا عمل، فائل فوٹوتصویر: ap

دوسری جانب عراق کے اندر سات مارچ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد قومی حکومت کی عدم تشکیل سے پیدا ہونے والے انتظامی خلا سے تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں عراق کے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان بات چیت کے لئے سعودی عرب نے جو پیش کش کی تھی اس کا آہستہ آہستہ مثبت جواب سامنے آنے لگا ہے۔ یہ پیشکش شاہ عبداللہ کی جانب سے سامنے آئی تھی۔ شاہ عبد اللہ کےبھتیجے شہزادہ سعود الفیصل نے مثبت ردعمل کی تصدیق ضرورکی ہے لیکن ابھی بڑے لیڈروں سے جواب سامنے آنا باقی ہے۔ امکانی طور پر یہ بات چیت وسط نومبر میں متوقع ہے۔

سعودی عرب کے علاوہ عرب لیگ بھی اس بات چیت کے عمل میں پیش پیش ہے۔ سعود الفیصل کے مطابق ان کا ملک اس بات چیت کا میزبان بننا چاہتا ہے تاہم وہ ان مذاکرات پر اثرانداز ہونے کا متمنی نہیں ہے۔ سعودی پیشکش کے حوالے سے وزیر اعظم نوری المالکی کے قریبی ساتھی اور رکن پارلیمنٹ سمیع العسکری کا کہنا تھا کہ یہ مثبت نہیں ہے۔ عراق کے اندر سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عراقی سیاستدان ایاد علاوی کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے بالکل اسی انداز میں جس طرح ،نوری المالکی کو ایران ڈھکے چھپے انداز میں سپورٹ کرتا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں