1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقاسم ’اللہ کی راہ میں مرنے‘ کو تیار تھا، فرانسیسی حکام

19 مارچ 2017

اورلی ایئر پورٹ پر ہفتے کے دن ہلاک کر دیے جانے والا فرانسیسی شہری ’اللہ کی راہ میں مرنے‘ کو تیار تھا جبکہ اس نے دوسروں کو ہلاک کرنے کا عہد بھی کر رکھا تھا۔ بلقاسم میں ’اسلامی بنیاد پرستی‘ کے رحجانات بھی دیکھے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2ZUpe
Paris Orly Fllughafen Polizei nach Terror Attacke
تصویر: Reuters/B. Tessier

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے فرانسیسی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیرس کے اورلی ایئر پورٹ پر ہلاک کر دیے جانا والا مشتبہ حملہ آور زیاد بن بلقاسم خفیہ اداروں کی واچ لسٹ پر تھا۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد بتایا گیا ہے کہ بلقاسم مجرمانہ ریکارڈ رکھتا تھا جبکہ اس میں ’اسلامی بنیاد پرستی‘ کی رحجانات بھی نوٹ کیے گئے تھے۔

پیرس کے اورلی ایئر پورٹ پر مشتبہ حملہ آور ہلاک کر دیا گیا

شام سے لوٹنے والے جہادی ’ٹائم بم‘ جیسے ہیں، فرنچ اہلکار

فرانسیسی شہر بوردو میں مسلم بنیاد پرستی کی نفی کی تحریک

پیرس کے پراسیکیوٹر فرانسوا مولن نے بلقاسم کو ’انتہائی پرتشدد فرد‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں دہشت گردی کے میلانات بھی پنپ رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلقاسم کے ہمسایوں نے اسے ’خوفناک شکل‘ والا ایک ’شیطان‘ قرار دیا ہے۔ انتالیس سالہ بلقاسم پیرس میں پیدا ہوا تھا۔

سن 2001 میں ایک مسلح ڈاکے کے جرم میں بلقاسم کو پانچ برس کی سزائے قید بھی سنائی گئی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ وہ دیگر جرائم میں بھی ملوث پایا گیا تھا۔ سن 2009 میں اس پر منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات بھی ثابت ہوئے تھے۔ حکام کے مطابق جیل میں سزا کاٹنے کے دوران اس میں بنیاد پرستی پیدا ہوئی تھی۔

اٹھارہ مارچ بروز ہفتہ بلقاسم نے پیرس کے دوسرے سب سے بڑے ایئر پورٹ پر سکیورٹی پر تعینات ایک خاتون فوجی سے گن چھیننے کی کوشش کی تھی، جس پر دیگر فوجیوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

فرانسیسی پولیس نے بلقاسم کے گھر کی تلاشی لی ہے تاہم اس کے گھر سے ایسے کوئی مواد نہیں ملا ، جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ وہ اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھا یا ان سے ہمدردی رکھتا تھا۔ تاہم اس دوران اس کے گھر سے کوکین برآمد ہوئی تھی۔ فرانسیسی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں بلقاسم کے بھائی اور والد کو بھی گرفتار کیا تھا۔

فرانس میں یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب پیرس حملوں کے بعد سن 2015 سے فرانس میں ہنگامی حالت نفاذ ہے، اس لیے اہم اور حساس مقامات پر سکیورٹی کی غرض سے فوج کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ فرانس بھر میں ساڑھے سات ہزار فوجی تعینات ہیں، جن میں سے نصف پیرس کے مختلف مقامات پر سکیورٹی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ہیں۔

گزشتہ ماہ ہی پیرس میں مشہور زمانہ میوزیم لُوور کے نزدیک ایک فوجی نے ایک مشتبہ حملہ آور پر فائرنگ کر دی تھی، جس کے باعث وہ شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکام نے اس میوزیم کو بند کر کے پیرس بھر میں سکیورٹی مزید سخت کر دی تھی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران فرانس میں متعدد ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں نیس اور پیرس کے بڑے حملے بھی شامل ہیں۔