1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان راستہ بند ہوا ہے، اسمگلروں کا دھندا نہیں

عاطف توقیر19 مئی 2016

محمد جمعہ پھولی سانس کے ساتھ یونان سے مقدونیہ پہنچنے کا قصہ سنا رہے ہیں۔ اس دس روزہ سفر میں پہاڑ اور مقامی مافیا گروہوں کی چھینا جھپٹیا اور پھر پولیس کی دی جانے والی بھاری رشوت سب اس سانس پھلا دینے والے سفر کا حصہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IqLF
Mazedonien Anti-Regierungsproteste in Skopje
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Grdanoski

سرکاری طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ مغربی یورپ جانے کے لیے بلقان کا راستہ بند ہو چکا، تاہم اب بھی سینکڑوں مہاجرین اس خطے کو روزانہ کی بنیاد پر استعمال کر کے پیدل مغربی یورپ تک پہنچ رہے ہیں اور اس سلسلے میں انسانوں کے اسمگلر بھی بے انتہا متحرک ہو چکے ہیں۔

20 سالہ شامی نوجوان جمعہ کا کہنا ہے، ’’ہو سکتا ہے آج یا کل میں سربیا چلا جاؤں، ایک بار پھر پیدل ہی۔ مجھے پولیس، مافیا یا کسی کا بھی خوف نہیں۔ مجھے ہر حال میں جرمنی پہنچنا ہے۔‘‘

محمد جمعہ اور ان کے چار مہاجر ساتھی شمالی مقدونیہ میں واقع تابانووچے مہاجر بستی میں چند روز پڑاؤ کے بعد سربیا میں اپنے اگلے پڑاؤ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان کی اگلی منزل بلغراد کے شمال میں قائم مہاجرین کا ایک اور مرکز ہے۔

Griechenland Flüchtlinge auf der Insel Lesbos
گزشتہ برس بلقان خطے کے ذریعے لاکھوں افراد مغربی اور شمالی یورپ پہنچےتصویر: Amnesty International/Fotis Filippou

یہ گروپ ان مہاجر بستیوں میں رات کے اندھیروں میں ہونے والی ڈیلز سے متعلق بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اس جگہ سے نکلنے کو بے تاب ہیں۔ ان چاروں نے بتایا کہ شب ہوتی ہے تو انسانوں کے اسمگلر ان مہاجر بستیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جمعہ بے بسی سے ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہاں ایک عجیب افراتفری ہے۔‘‘

مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مارچ میں بلقان خطے کے ممالک نے اپنی اپنی قومی سرحدین بند کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مقدونیہ کے تابانوچے مہاجر کیمپ میں قریب 15 سو مہاجرین پھنس کر رہ گئے تھے۔ یہ افراد مقدونیہ سے سربیا اور پھر مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔

سرحدوں کی بندش سے قبل یونان سے مقدونیہ کے ذریعے بلقان خطے کو بہ طور راستہ استعمال کر کے مغربی اور شمالی یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی یومیہ تعداد ہزاروں میں تھی۔ مقدونیہ میں مہاجرین کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی این جی او کے مطابق، ’’ہم یہ نہیں جانتے کہ اس راستے سے کتنے امیر اور کتنے غریب گزرے مگر جو افراد اس وقت مہاجر بستیوں میں موجود ہیں، وہ واضح طور پر انتہائی غریب افراد ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد جن کے پاس پیسے موجود ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح ان اسمگلروں کے ذریعے آگے بڑھ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘

ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والی ڈیل کے تحت ترکی بحیرہ ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو روک رہا ہے، جب کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو بھی واپس ترکی لوٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے بدلے ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو براہ راست یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں پناہ دی جانا ہے، جس پر سست روی سے عمل درآمد جاری ہے۔