1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان ریاستوں میں پھنسے افغان مہاجرین، واپسی کا راستہ نہیں

عاطف توقیر
9 اکتوبر 2016

بلقان ریاستوں میں پھنسے سینکڑوں افغان مہاجرین، جو طویل سفر میں اپنی تمام جمع پونجی اسمگلروں کو دے بیٹھے یا زادِر اہ کے طور پر استعمال کر چکے ہیں، اب واپس لوٹنے کے تصور سے بھی خوف کھاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2R36l
Griechenland Armbänder für Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Giannakouris

بلقان ریاستوں کی جانب سے سرحدوں کی بندش کے بعد وہاں پھنس جانے والے مہاجرین کے لیے مغربی یا شمالی یورپی ممالک تک پہنچنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں، یہ مہاجرین واپس وطن جانا نہیں چاہتے تاہم ان میں سے بہت ساروں کو جبری طور پر افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس وقت سربیا اور دیگر بلقان ریاستوں میں ہزاروں افغان مہاجرین موجود ہیں، جو نکلے تو یہ سوچ کر تھے کہ وہ کسی طرح مغربی یورپی ممالک تک پہنچ جائیں گے، تاہم بلقان ریاستوں میں پھنس کر رہ گئے۔ افغانستان اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد اب ایسے مہاجرین جن کی یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکیں، وطن واپسی آسان ہو چکی ہے۔

Griechenland Mazedonien Flüchtlinge bei Idomeni
ہزاروں افغان مہاجرین بلقان ریاستوں میں پھنسے ہوئے ہیںتصویر: Reuters/A. Avramidis

چند روز قبل ’دی جوائنٹ وے فارورڈ‘ یا ’آگے جانے کا مشترکہ راستہ‘ نامی اعلامیہ بدھ کے روز ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا ہے، جب افغانستان کے لیے پندرہ ارب ڈالر سے زائد کی امداد کی اپیل کے ساتھ ایک بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس بدھ کے روز منعقد ہونے کو ہے۔ اس اعلامیے میں افغان باشندوں کی یورپی یونین سے وطن واپسی کو خاصا آسان بنا دیا گیا ہے، جب کہ امدادی ادارے اس اعلامیے پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس اعلامیے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ ایسے افغان باشندے جن کی جانب سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سیاسی پناہ کے لیے دی جانے والی درخواستیں مسترد ہو جائیں گی، انہیں کس طرح وطن واپس بھیجا جائے گا۔ اس میں خواتین اور بچوں کی افغانستان منتقلی کی راہ بھی ہم وار کر دی گئی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے خصوصی پروازوں کا اہتمام، انہیں سفری دستاویزات جاری کرنے اور کابل کے ہوائی اڈے میں ایک علیحدہ ٹرمینل کی تعمیر جیسے امکانات کا ذکر ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے جاری کردہ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستیں رد ہو جانے کے بعد افغان باشندوں کی وطن واپسی سہل اور تیز رفتار ہونا چاہیے۔

دوسری جانب امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس افغانستان میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی وجہ سے قریب 11 ہزار عام شہری ہلاک جب کہ ایک ملین سے زائد اپنے ملک ہی میں بے گھر ہوئے ہیں اور ایسے میں یورپ سے افغان مہاجرین کی جبری واپسی ایک درست عمل نہیں ہے۔