1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان ممالک کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے، میرکل

افسر اعوان27 اگست 2015

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور مغربی بلقان کے خطے کے رہنما آج ویانا میں ہونے والی میٹنگ میں مہاجرین کی بہت بڑی تعداد میں یورپ آمد کے مسئلے پر مشاورت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GN04
تصویر: DW/E. Numanovic

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس وقت یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ویانا میں یورپی رہنما اس بحران سے نمٹنے کے لیے مربوط اور جامع منصوبوں کی تیاری کے بارے میں بات چیت کریں گے۔

انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے ہزارہا مہاجرین کی آمد کے باعث بلقان ممالک شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ویانا میں ہونے والی اس کانفرنس کے موقع پر جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ’’مغربی بلقان کے ممالک جہاں سے لوگ گزر کر آتے ہیں، بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘

آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والی اس میٹنگ سے قبل آج ہی آسٹریا کی پولیس کو ایک ہائی وے کے کنارے کھڑے ٹرک سے تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں جو گلنا سڑنا شروع ہو گئی تھیں اور جن کی تعداد 20 سے 50 کے درمیان ہو سکتی ہے۔ یہ ٹرک بوڈا پیسٹ سے ویانا جانے والی شاہراہ پر ملا۔

مہاجرین کے بحران پر غور کے لیے ویانا میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کے موقع پر آسٹریا کے چانسلر ویرنر فیمان کا کہنا تھا کہ تارکین وطن کی اس طرح ہلاکت کا المیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مہاجرین کی آمد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’آج مہاجرین نے اپنی وہ جانیں گنوا دیں جنہیں بچانے کے لیے وہ گھر بار چھوڑ کر آئے تھے، لیکن انہوں نے انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوائیں۔‘‘

یورپ کو مہاجرین کے مسئلے سے فوری طور پر نمٹنا ہو گا اور یکجہتی کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنا ہو گا
یورپ کو مہاجرین کے مسئلے سے فوری طور پر نمٹنا ہو گا اور یکجہتی کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنا ہو گاتصویر: picture-alliance/dpa/G. Hochmuth

اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اس بُری خبر سے ہل کر رہ گئی ہیں کہ 50 لوگوں نے اس راستے پر اپنی جانیں گنوا دیں جس کے ذریعے وہ زیادہ تحفظ حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘‘ میرکل کا اس موقع پر مزید کہنا تھا، ’’یہ ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ یورپ کو اس مسئلے سے فوری طور پر نمٹنا ہو گا اور یکجہتی کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔‘‘

خانہ جنگی سے بچنے یا غربت کے ہاتھوں تنگ مشرق وُسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ رواں برس یورپ پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ بلقان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ ترکی سے بذریعہ سمندری راستہ یونان پہنچتے ہیں وہاں سے بالائی شمال میں موجود ملک مقدونیہ پہنچتے ہیں جس کے لیے وہ بس یا پھر پیدل سفر کرتے ہیں۔ یا پھر بذریعہ ٹرین سربیا پہنچ کر آخری چند میل پیدل سفر کر کے یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک بار یورپی یونین میں داخل ہونے کے بعد یہ مہاجرین معاشی طور پر آسودہ ممالک مثلاﹰ جرمنی، ہالینڈ، آسٹریا یا سویڈن تک پہنچنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔