1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان کی ریاستوں سے مہاجرین کی غیر قانونی ملک بدری

27 دسمبر 2016

اقوام متحدہ کے مطابق بلقان کی ریاستوں سے مہاجرین اور تارکین وطن کی غیر قانونی ڈی پورٹیشن (ملک بدری) میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ انہی ممالک کے راستے لاکھوں مہاجرین وسطی اور مغربی یورپی ممالک تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2UuRY
UNICEF Mazedonien Flüchtlinge
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے حوالے سے بتایا ہے کہ بلقان کی ریاستوں میں مہاجرین اور تارکین وطن کی غیرقانونی اور زبردستی ملک بدری کے عمل میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ اس ادارے نے اس صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح مہاجرین کی صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

کروشيا ميں باسٹھ مہاجرين پکڑے گئے، کئی پاکستانی بھی شامل

غیرقانونی نقل مکانی، جرمنی نے موٹروے پر چیکنگ سخت کر دی

سربیا میں پناہ گزین ’قسمت پلٹنے کے انتظار میں‘

سربیا میں اس ایجنسی کی ترجمان ماریانا میلنکووسکا نے بتایا کہ بلقان کی ریاستوں میں مہاجرین کی طرف سے اختیار کیے جانے والے راستوں سے صرف نومبر کے مہینے میں تقریباﹰ ایک ہزار مہاجرین کو واپس بھیجا جا چکا ہے، جو ماضی کے اعداد و شمار کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد بنتی ہے۔ ان میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے باشندے شامل تھے۔

رواں برس مارچ کے مہینے تک ہزاروں مہاجرین انہی راستوں کے ذریعے یونان سے مغربی یورپ پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ کسی نہ کسی طرح یونان پہنچ جانے والے یہ مہاجرین مقدونیہ، سربیا، کروشیا اور ہنگری سے ہوتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔

تاہم مارچ میں ان راستوں کی بندش کے سبب ان مہاجرین کے راستے تقریباﹰ مسدود ہو چکے ہیں۔ اب ان مہاجرین کو اپنا سفر جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ یونان میں محصور ہو جانے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے بھی خبردار کیا ہے کہ سربیا، مقدونیہ اور بلغاریہ میں قانونی طور پر رجسٹرڈ مہاجرین کو غیرقانونی طور پر ڈی  پورٹ کیا جا رہا ہے اور ایسے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے کئی کیس بھی سامنے آئے ہیں، جن میں ملک بدر کیے جانے والے ایسے مہاجرین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سربیا میں اس وقت تقریباﹰ سات ہزار مہاجرین موجود ہیں، جو زیادہ تر اس ملک میں قائم تیرہ مہاجر سینٹروں میں قیام پذیر ہیں۔ ماریانا میلنکووسکا نے بتایا کہ سربیا میں ایک ہزار مہاجرین ایسے بھی ہیں جو بلغراد میں برے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نومبر میں مبینہ طور پر ایک سو نو مہاجرین کو صرف سربیا سے مقدونیہ ڈی پورٹ کیا گیا۔

مقدونیہ میں مہاجرین کو مدد فراہم کرنے والی فعال نوجوان وکلاء کی ایسوسی ایشن ’ایم وائی ایل اے‘ کے مطابق ایسے کئی مہاجرین کو سربیا سے مقدونیہ جانے پر مجبور کیا گیا، جن کے پاس سربیا میں پناہ حاصل کرنے کے حوالے سے قانونی دستاویزات بھی تھیں۔