1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان پیکیج: حمایت اور مخالفت بھی

24 نومبر 2009

پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ بلوچستان پیکج کی بنیاد وہ احساس ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں کے ازالے کے لئے قومی مفاہمت کی راہ اختیار کرنی ہوگی۔

https://p.dw.com/p/KeLI
پاکستان کے بحران زدہ صوبے بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں سیکیورٹی اہلکار گشت کرتے ہوئےتصویر: AP

وزیراعظم گیلانی نے تمام اراکین پارلیمان پر زور دیا کہ وہ پارٹی نظریات سے بالاتر ہوکر جمہوری اداروں کے استحکام اور اقتصادی و سیاسی محرومی کے شکار بلوچ عوام کی خوشحالی کے لئے ایک ساتھ مل کر کام کریں۔ بعد ازاں بلوچستان آئینی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رضا ربانی نے پیکج کے نمایاں نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سوئی سے فوج واپس بلا کر اس کی جگہ ’ایف سی‘ تعینات کی جائے گی جبکہ سوئی اور کوہلو کے علاقوں میں فوجی چھاوٴنیوں کی تعمیر بھی فوراً کم از کم عارضی طور پر روک دی جائے گی۔

Raza Gilani pakistanischer Premierminister
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ نظریات سے بالاتر ہوکر بلوچستان پیکیج کی حمایت کریںتصویر: AP

سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار سیاسی کارکنوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا:’’وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کی مشاورت کے ساتھ تمام گرفتار سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرے گی، ماسوائے اُن افراد کے، جن کے خلاف سنگین جرائم کے تحت مقدمات درج ہیں۔‘‘

بلوچستان پیکج کے مطابق نواب اکبر بگٹی سمیت دیگر قوم پرست بلوچ رہنماوٴں کے قتل کی عدالتی تحقیقات بھی کرائی جائیں گی جبکہ سینڈک پراجیکٹ کے حصص اور سن 1954ء سے سن 1991 ء تک کی سوئی گیس کی رائلٹی بھی صوبائی حکومت کو آئندہ بارہ برسوں کے دوران ادا کر دی جائے گی۔

Nawab Akbar Khan Bugti
بلوچستان پیکیج کے مطابق وفاقی حکومت کے مخالف بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کی تحقیقات بھی کرائی جائیں گیتصویر: AP

دوسری جانب قوم پرست رہنما سینیٹر حاصل بزنجو نے حکومتی پیکج پر تنقید کرتے ہوئے بتایا:’’اس پیکج میں سوائے پرانی باتوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک چیک پوسٹ ہٹانے کے لئے کمیٹی بنانا پڑے گی، جس کا اختیار بھی بلوچستان کی صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہوگا۔ ملازمت کے حوالے سے کوئی بھی باقاعدہ لائحہ عمل واضح نہیں کیا گیا، جس کے تحت تین ، چار ہزار بے روزگار افراد کو نوکریاں فراہم کی جا سکیں۔‘‘ اُنہوں نے اسپیکیج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مزید بتایا کہ روزگار فر اہم کرنے کا وعدہ تو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے بھی کیا تھا لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔’’جہاں تک اکبر بگٹی قتل کیس کی تحقیقات کا سوال ہے تو اس پر پہلے ہی کمیشن تحقیقات کرر ہا ہے، جو ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔ موجودہ پیکج بالکل کھوکھلے وعدوں پر مشتمل ہے اور بوگس ہے۔‘‘

بلوچستان پیکج پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے پارلیمان کی قومی سلامتی سے متعلق کمیٹی کواس کا نگران مقرر کیا گیا ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر تین ماہ بعد پیکج کے نفاذ سے متعلق اپنی رپورٹ اسی کمیٹی کو پیش کریں گی۔

بعض مبصرین کے مطابق پیکج پیش کرنے کے بعد حکومت کا اصل امتحان ان تجاویز پر مختلف سیاسی حلقوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا کے علاوہ ناراض بلوچ قوم پرست رہنماوٴں کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔

رپورٹ: امتیاز گل، اسلام آباد

ادارت: گوہر نذیر گیلانی