1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی مدرسے سے ہتھیار ’برآمد‘

گوہر نذیر گیلانی25 مارچ 2009

بنگلہ دیش میں سرحدی حفاظتی دستے بنگلہ دیش رائفلز کے اہلکاروں کی طرف سے فوج کے خلاف حالیہ بغاوت کے بعد اب بنگلہ دیش کو ایک اور سنگین مسئلے کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/HJSf
بنگلہ دیش میں فوج کے خلاف حالیہ بغاوت کے وقت فوجی اہلکار باغی سپاہیوں کے خلاف پوزیشن سنبھالتے ہوئےتصویر: picture-alliance/ dpa

بنگلہ دیشی پولیس کے مطابق ملک کے جنوبی حصّے میں واقع ایک مدرسے سے بھاری مقدار میں ہتھیار ضبط کرلئے گئے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق اس مدرسے کو برطانیہ میں قائم ایک خیراتی ادارے کی طرف سے مالی معاونت حاصل رہی ہے۔ پولیس اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ ’’گرین کریسنٹ چیریٹی‘‘ نامی خیراتی ادارے اور بنگلہ دیش کے اس مدرسے کے درمیان کس نوعیت کے روابط رہے ہیں۔

Terror als Lebensform
پولیس حکام کو شبہ ہے کہ اسلامی مدرسوں میں عسکریت پسندوں کو ہتھیاروں کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہےتصویر: AP

بنگلہ دیش پولیس نے خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد منگل کو ملک کے بھولا نامی جنوبی جزیرے میں واقع ایک اسلامی مدرسے پر چھاپہ مارا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں مدرسے سے ہتھیار، گولیاں، دھماکہ خیز مواد اور جہادی مطبوعات کے علاوہ دیگر قابل اعتراض مواد پایا گیا۔

بنگلہ دیش کی ’’ریپیڈ ایکشن بٹالین‘‘ کے ایک افسر لیفٹنٹ کمانڈر معمون الرشید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بنگلہ دیشی مدرسے اور برطانوی خیراتی ادارے کے درمیان روابط کی تحقیقات جاری ہیں۔ ’’ہم تحقیقات کررہے ہیں۔ برطانوی خیراتی ادارے اور بنگلہ دیشی مدرسے کے درمیان کس قسم اور کس نوعیت کے روابط ہیں، اس بارے میں تین چار روز بعد ہی کچھ وثوق سے کہا جاسکتا ہے۔‘‘

’’برطاینہ میں قائم خیراتی ادارہ ’گرین کریسنٹ چیریٹی‘ اس مدرسے کو چلا رہا ہے۔ اس مدرسے کے اندر ایک اسکول اور یتیم خانہ بھی ہے۔ مدرسے کے اندر ہم نے بھاری مقدار میں ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد ضبط کیا ہے۔ مدرسے کے اندر اتنا مواد موجود تھا جس سے بآسانی سینکڑوں گرینیڈز تیار کئے جاسکتے تھے۔‘‘

کمانڈر رشید کے مطابق اس مدرسے نے محض پینتالیس روز قبل ہی اپنا کام کاج شروع کیا تھا۔

پولیس کو شبہ ہے کہ اس مدرسے کی جگہ کو عسکریت پسندوں کے لئے تربیتی کیمپ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بعض مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ انہیں مدرسے میں آنے جانے والے افراد کی حرکات مشکوک لگی ہیں۔

سن دو ہزار پانچ اگست میں بنگلہ دیش میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جن کی پاداش میں سات مشتبہ عسکریت پسندوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ابھی گُذشتہ ماہ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں بنگلہ دیش رائفلز کے بعض اہلکاروں نے فوج کے خلاف بغاوت کی جس کے نتیجے میں چھپن اعلیٰ فوجی افسران سمیت کم از کم ستر افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کو شبہ ہے کہ اس بغاوت کی سازش کے پیچھے عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔