1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش :باغی سپاہیوں کے لئے عام معافی کا اعلان

گوہرنذیر گیلانی25 فروری 2009

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے فوجی افسران کے خلاف بغاوت کرنے والے سرحدی گارڈس کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا تاہم ساتھ ہی اُن سے ہتھیار ڈالنے کو کہا۔

https://p.dw.com/p/H18t
ایک بنگلہ دیشی سپاہی پوزیشن سنبھالے بیٹھا ہےتصویر: AP

وزیراعظم کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے فوراً بعد ہی باغی اہلکار سرینڈر کرنے پر راضی ہوگئے۔

بنگلہ دیشی حکام کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ میں آج نیم فوجی دستے بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈکوارٹر کے اندر بعض ناراض اہلکاروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور چودہ دیگر زخمی ہوگئے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان میں ایک فوجی افسر بھی شامل ہے جبکہ ہلاک ہونے والا دوسرا شخص عام شہری بتایا جاتا ہے۔

فائرنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش رائفلز کے اندر مچی افراتفری اور باغیوں پر قابو پانے کے لئے ریگولر آرمی کی مدد طلب کرنا پڑی۔ نیم فوجی اہلکاروں نے آج ھیڈکوارٹر کے اندر سے آرمی کے کئی ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ بھی کی۔ بعد ازاں فوج نے حالات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی اور فائرنگ میں پھنسے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا۔

اس واقعے کے باعث ھیڈکوارٹر کے آس پاس کے تمام کاروباری مراکز، اسکول اور دکانیں بند ہوگئیں۔ ذرائع کے مطابق آج صبح ھیڈکوارٹر پر سینئیر افسران کی ایک سالانہ کانفرنس ہورہی تھی جس میں سپاہیوں کو اپنی شکایات درج کروانے کی اجازت تھی۔ لیکن اپنی شکایات درج کروانے کی بجائے وقت پر تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ناراض نیم فوجی اہلکاروں نے ریگولر آرمی کے افسران کے خلاف اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا اور فوجی افسران کو کانفرنس روم میں بند کردیا۔

باغی اہلکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک عرصے سے ان کے جائز مطالبات پورے نہیں ہورہے ہیں اور اس لئے وہ بغاوت کرنے پر مجبور ہوگئے۔‘

ایک عرصے تک ایمرجنسی کے نفاذ اور فوج کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور رہنے کے بعد بنگلہ دیش میں گُذشتہ برس دسمبر میں عام انتخابات منعقد ہوئے، جن کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ بحران کا شکار یہ ملک اب استحکام کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن آج دارالحکومت ڈھاکہ میں بنگلہ دیش رائفلز کے ہیڈکوارٹر میں پیش آنے والے واقعے نے تصویر کا رُخ پھر سے بدل کے رکھ دیا۔ سابق فوجی جنرل سعید محمد ابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’ آج کے واقعے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے خوف کا ماحول تھا۔ سپاہیوں کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں بچا تھا جس سے وہ اپنی جائز شکایات حکام تک پہنچاسکتے تھے۔ گُذشتہ دو برسوں سے ملک کے معاشی حالات ابتر ہیں اور سپاہیوں کو تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات پورے نہیں کئے جارہے تھے۔‘‘