1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بودھ دہشت گردی کی علامت‘ کا راکھین کا اشتعال انگیز دورہ

Irene Banos Ruiz ع ب
4 مئی 2017

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’بودھ دہشت گردی کی علامت‘ قرار دیا گیا سخت گیر بھکشو رہنما ویراتُھو وہاں اقلیتی روہنگیا آبادی کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کے کچھ ہی عرصے بعد ریاست راکھین کے ایک اشتعال انگیز دورے پر ہے۔

https://p.dw.com/p/2cMkO
Buddhistische Mönche Birma Myanmar
امریکی ہفت روزہ جریدے ٹائم کے سرورق پر چھپنے والی ویراتھو کی وہ تصویر جس میں اسے ’بودھ دہشت گردی کا چہرہ‘ قرار دیا گیا تھاتصویر: Christophe Archambault/AFP/Getty Images

سابق برما اور موجودہ میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون سے جمعرات چار مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اپنی بہت جذباتی اور اشتعال انگیز تقریروں کے لیے مشہور اور انتہائی سخت گیر سوچ کے حامل ویراتُھو نامی اس بودھ بھکشو نے آج ریاست راکھین میں ماؤنگ ڈا نامی قصبے کا دورہ کیا۔ یہ بات ویراتُھو کے ساتھ سفر کرنے والے اس کے ایک ساتھی پھوئے تھار نے ٹیلی فون پر خود اے ایف پی کو بتائی۔

Ashin Wirathu
ویراتھو اپنی اشتعال انگیز مسلم مخالف تقریروں کی وجہ سے جانا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Gacad

اس خبر رساں ادارے نے لکھا ہے کہ ماؤنگ ڈا میانمار کی ریاست راکھین کا وہی شمالی قصبہ ہے، جو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف گزشتہ خونریزی کا مرکز بن گیا تھا۔ مزید یہ کہ ویراتُھو کی ابھی تک اس خطے میں موجودگی بدھ مت کی پیروکار آبادی کے نہ صرف راکھین میں انتہائی غربت اور محرومی کی شکار روہنگیا اقلیت بلکہ پورے میانمار کی مسلم آبادی کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے۔ کافی زیادہ بدنام ہو جانے والا سرکردہ بودھ بھکشو ویراتُھو راکھین کا یہ اشتعال انگیز دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہا ہے، جب میانمار کی فوج نے ابھی کچھ عرصے پہلے ہی وہاں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن ختم کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق میانمار کی فوج کا راکھین میں یہ کریک ڈاؤن کئی ماہ تک جاری رہا تھا، جس دوران سینکڑوں روہنگیا مسلمان مارے گئے تھے اور 70 ہزار سے زائد اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد، سُوچی اور یورپی یونین میں اختلافات

لاکھوں کی ہلاکت سے حوصلے پست نہیں ہوں گے، روہنگیا لیڈر

معروف مسلم وکیل کا قتل، سوچی نے خاموشی توڑ دی

اقوام متحدہ کے تفتیشی اہلکاروں کے مطابق راکھین میں اس فوجی کریک ڈاؤن کے دوران، جو بظاہر وہاں روہنگیا مسلمانوں کے نام نہاد عسکریت پسند گروہوں کے خلاف شروع کیا گیا تھا، انسانی قتل اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی ایک ایسی پوری مہم دیکھنے میں آئی، جسے ممکنہ طور پر نسلی تطہیر کا عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

Bangladesch - Rohingya-Konflikt
پانچ برسوں میں میانمار سے قریب پونے دو لاکھ روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images/A. Joyce
Myanmar Rohingya
بدامنی اور خونریزی سے متاثرہ راکھین کا ایک روہنگیا اقلیتی مسلمان عبدالرشید ریاستی دارالحکومت ستوے کے قریب ایک مہاجر کیمپ میں اپنی بیمار بیوی اور بچوں کے ساتھتصویر: DW/L. Kafanov

میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیت کی آبادی ایک ملین سے زائد ہے اور ملکی حکومت ان مسلمانوں کے خلاف خونریز فوجی کریک ڈاؤن کے دوران گینگ ریپ، خوفناک زیادتیوں اور نسلی تطہیر کی طرح کے اقدامات کے اقوام متحدہ کی طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کو سرے سے مسترد کرتی ہے۔

راکھین میں قوم پرست بودھ سیاستدانوں کے مطابق ویراتُھو کے راکھین میں ماؤنگ ڈا نامی قصبے کے دورے کا مقصد وہاں مقامی نسلی اور مذہبی اقلیت کے طور پر رہائش پذیر ان بودھ باشندوں میں علامتی عطیے کے طور پر چاول تقسیم کرنا ہے، جو گزشتہ خونریزی کے دوران بے گھر ہو گئے تھے۔

اسی دوران جمعرات چار مئی ہی کے روز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال سے بھی زائد عرصے میں میانمار بالخصوص راکھین میں خونریزی اور قتل و غارت سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے قریب ایک لاکھ ستر ہزار روہنگیا مسلمان فرار ہو کر بنگلہ دیش اور ملائیشیا جیسے کئی قریبی ملکوں کو جا چکے ہیں۔