1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا ہیرسےگووینا کی مسلم برادری کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟

عدنان اسحاق22 مئی 2016

بوسنیا ہیرسےگووینا میں اسلام کئی صدیوں سے یورپ کا حصہ ہے۔ تاہم اسلام کے موضوع پر ہونے والی بحث و مباحثوں میں بوسنیا ہیرسےگووینا کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہی سنائی دیتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

https://p.dw.com/p/1IsYY
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Demir

بوسنیا ہیرسےگووینا کی مسلم برادری اور ان کے مختلف ادارے سیکولرزم کے اصولوں پر کاربند ہیں اور یہ خود مختار بھی ہیں۔ بوسنیا کے ایک تاریخ دان اور اسلامی امور کے ماہر امیر دورانووچ کہتے ہیں، ’’مذہب سے متعلق سوالات کے جوابات اور تشریح کی بات کی جائے تو مسلم برادری کی خود مختاری کے بہت سے فائدے ہیں، ساتھ ہی یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کئی دیگر مسلم ممالک میں مذہبی معاملات کو سرکاری اداروں کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔

Bosnien-Herzegowina Bajram Zuckerfest in Srebrenica
تصویر: DW/M. Sekulic

سیکولر اور معتدل

بوسنیا کے اسلام کو عالمی سطح پر اعتدال پسند کہا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں: بوسنیا ہیرسےگووینا کے مسلمانوں صدیوں سے ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں، جس کے ارد گرد مسیحی ممالک ہیں۔ بوسنیا ہیرسےگووینا کی زبان اور ثقافت پر پڑوسی ملک سربیا کے قدامت پسند یا آرتھوڈاکس کرسچیئنز اور کروشیا کے کیتھولک مسیحیوں کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق سوشلسٹ یوگوسلاویہ میں عام زندگی میں مذہب کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ ساری چیزیں مسلمانوں پر بھی لاگو ہوتی تھیں۔ تاہم بیسویں صدی کے دوران سیکولرزم کو پروان چڑھانا کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران اسلام کواس خطے کی شناخت کے طور پر تسلیم تو کیا گیا تاہم اس کے سیاست اور معاشرے میں اثرات کو محدود کر دیا گیا۔ 1985ء میں یوگوسلاویہ میں کرائے جانے والے ایک جائزہ میں کہا گیا کہ صرف 15 فیصد مسلمان اہل ایمان ہیں۔

جنگ سے آنے والی تبدیلی

تاہم 1992 میں بوسنیا کی جنگ نے بوسنیا ہیرسےگووینا کے مسلمانوں کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ تین سال یعنی 1995ء تک انہیں منظم انداز میں قتل کرنے علاوہ بے دخل کیا گیا اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یورپی سرزمین پر ہونے والا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ سراژیوو میں قائم بوسنی جنگ پر تحقیق کرنے والی ایک ادارے نے بتایا کہ اس جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں سے 80 فیصد اس خطے کے مسلمان تھے۔ تاہم آج سرب آرتھوڈوکس اور کیتھولک کروآٹ کی طرح 90 فیصد بوسنی مسلمان بھی کھلم کھلا مسلمان ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔

عام زندگی

بوسنیا ہیرسےگووینا کی بہت کم ہی خواتین حجاب کرتی ہیں اور مسجدوں میں خواتین اور مردوں کے الگ الگ نماز پڑھنے پر بھی سختی سے عمل نہیں کیا جاتا۔ مرد اور خواتین ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب جنگ کے بعد یہاں بھی شدت پسندانہ سوچ پروان چڑھی ہے۔ ساتھ ہی سلفی نظریات کے حامل افراد بھی اپنے قدم جمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم بڑھتی ہوئی مذہبیت اور جنگی صدموں کے باوجود بوسنیا ہیرسےگووینا کی مسلم برادری یورپی طرز زندگی اپنائے ہوئے ہے۔